اسلام آباد(عکس آن لائن ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ سے اعتراضات اور اختیارات کی تفصیل طلب کر لی ،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اداروں کے انتظامی معاملات میں مداخلت عدالتی اختیارات سے تجاوز ہے۔ جمعرات کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی تشکیل سے متعلق کیس پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جانوروں کے رہنے کی محفوظ جگہوں کو تباہ کردیا گیا ، ایلیٹ کلاس اور بااثر طبقات نے ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے ، چالیس سال سے بیوروکریسی نہیں چاہ رہی تھی کہ بورڈ بنے لیکن اس عدالت کے حکم پر بورڈ بنا، یونائٹیڈ سپریم کورٹ آف امریکا کے سامنے اس عدالت کا فیصلہ پیش کیا گیا ، بورڈ کی چیئرپرسن اور ممبران سب قابل اور کام کرنے والے ہیں ، بورڈ کو بہت اختیارات حاصل ہیں، بورڈ کو چاہیے کہ وہ اپنے اختیارات کو پہچانے۔
ٹریل اور صرف چڑیا گھر نہیں بورڈ کے اور بھی بہت کام ہیں بنیادی کام کو سمجھیں۔ 1960 میں یہاں اسلام آباد میں آکر ایک غیر ملکی نے کام کیا تھا اس لٹریچر کو پڑھیں۔ چیئرپرسن وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ رائنا سعید خان نے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے کام میں سی ڈی اے کی مداخلت سے متعلق بتایا کہ ہمارے بورڈ اکھاڑ دئیے گئے کام میں مداخلت کی جارہی ہے کیسے سب کچھ کریں ، سی ڈی اے کے ممبر کبھی بورڈ کی میٹنگ میں بھی نہیں آئے۔
چیف جسٹس نے بورڈ چیئرپرسن رائنا سعید خان سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت اداروں کے انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ،عدالتوں کو اداروں کے انتظامی معاملات میں مداخلت کرنی بھی نہیں چاہیے، اداروں کے ایڈمنسٹریٹو معاملات میں مداخلت عدالتی اختیارات سے تجاوز ہے، عدالت اداروں کے انتظامی معاملات ٹھیک کرنے کے لیے بھی نہیں ہے ،اس پٹیشن کی وجہ سے آپ چالیس سال بعد تعینات ہوئیں ہیں ، آپ وفاقی کابینہ کے سامنے یہ معاملہ رکھیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ سے اعتراضات اور اختیارات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔