راولپنڈی(نمائندہ عکس ) پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ماہرین ‘ آئی ٹی ایکسپرٹس اور دیگر کی ضرورت ہوتو انہیں بھی شامل کرنا چاہیے‘ قتل کی تحقیقات کے لئے قائم انکوائری کمیٹی اہم سیاسی شخصیات سمیت تمام لوگوں کے بیانات ریکارڈ کرے‘رات کو آرمی چیف سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں اور دن کو ان کے خلاف بیانات دیئے جاتے ہیں‘ سائفر اور ارشد شریف کی موت سے جڑے حقائق کی جڑ تک پہنچنا ضروری ہے‘ سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام میں آئے جس نے کھوکھلی من گھڑت کہانی کو بے نقاب کیا ‘ آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیرمعینہ مدت توسیع کی پیشکش کی گئی، اگرآپ کا سپہ سالارغدار ہے تو ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھے گئے، آپ کا سپہ سالارغدار ہے تو ایکسٹیشن کیوں دی؟،
سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی آپ چھپ کر اس سے کیوں ملتے ہیں ، شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے،یہ سب اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ ہم نے غیر قانونی کام سے انکار کیا،غیر قانونی کام سے انکار فرد واحد یا صرف آرمی چیف کا فیصلہ نہیں پورے ادارے کا تھا،جھوٹ سے فتنہ و فسادکا خطرہ ہوتو سچ کاچپ رہنا نہیں بنتا، میں اپنے ادارے، جوانوں اور شہدا کا دفاع کرنے کے لیے سچ بولوں گا، ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، اس میں دو رائے نہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنے کی مذمت کرنی چاہیے، مارچ سے ہم پربہت پریشر ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہے خود کو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے، جنرل باجوہ نے فیصلہ ملک اور ادارے کے حق میں کیا، جنرل باجوہ اور ان کے بچوں پرغلیظ تنقید کی گئی ‘ سائفر اور ارشد شریف کی موت سے جڑے حقائق کی جڑ تک پہنچنا ضروری ہے، ارشد شریف پاکستانی صحافت کے آئیکون تھے،ہم کمزور ہو سکتے ہیں،ہم سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن ہم غدار، سازشی یا قاتل نہیں ہوسکتے ۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آج پریس کانفرنس آج حالات اور تناظر کے تحت کی جارہی ہے ، یہاں حقائق کا ادراک انتہائی ضروری ہے ، قائد سچ اور حقائق سے عوام کو آگاہ کیا جاسکے ، اس پریس کانفرنس کے حوالے سے وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا ، ان عوامل کا احاطہ کرنا ضروری ہے ،
جس کے تحت مخصوص بیانیہ بنایا گیا ، جھوٹے بیانیہ کے ذریعے قوم کو گمراہ کیا گیا ، ملکی اداروں اور آرمی چیف پر بے جا الزام تراشی کی گئی ، معاشرے میں تقسیم اور غیر ضروری صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ صحافی ارشد شریف کی وفات انتہائی اندوہناک واقعہ ہے ، ہمیں ان کی وفات کی شدید دکھ ہے ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ، مشکل اور دکھ کی گھڑی میں ان کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہیں، ارشد شریف صحافت کا روشن چہرہ تھے ، سیاچن کا محاذ ہو ، لائن آف کنٹرول ہو یا فوجی آپریشن ، ارشد شریف کا پروگرام صحافت کی دنیا میں رول ماڈل کے طور پر یاد رکھاجائے گا ، وہ انتہائی محنتی صحافی تھے ، ان کی وجہ شہرت متعدد پروگرام کئے ، اس حوالے سے انہوں نے وزیراعظم کے ساتھ کئی پروگرامز کئے ارشد شریف نے وزیراعظم کے کئی انٹرویوز بھی کئے ، اس کے نتیجے میں شاید مختلف میٹنگز میں سائفر بھی دکھایا گیا ۔ ان کا کہناتھا کہ سائفر اور ارشد شریف کی وفات سے بڑے واقعات تک پہنچنا ضروری ہے تاکہ کسی قسم کا ابہام اور شک وشبہ نہ رہے ، سائفر کے حوالے سے آرمی چیف نے مارچ کو سابق وزیراعظم عمران خان سے خود اس بات کا تذکرہ کیا جس پر انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی بڑی بات نہیں ، 27مارچ کے جلسے میں کاغذ کا ٹکڑا لہرانا ہمارے لئے حیران کن تھا ، ایک ایسا بیانیہ لانے کی کوشش کی گئی جس کے حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ، سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام میں آئے جس نے کھوکھلی من گھڑت کہانی کو بے نقاب کیا ، عمران خان نے پاکستانی سفیر کو اپنی سایست کیلئے استعمال کیا 31مارچ کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی بھی اس کی کڑی تھی ، آئی ایس پی آر نے بڑے واضح انداز میں بتایا کہ حکومت کے خلاف کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے ۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی بریف کیا گیا ،
آئی ایس آئی کو نشینل کی سائفر سے متعلق معلومات میں کسی قسم کے شواہد نہیںملے ، تمام معلومات دیکارڈ کا حصہ ہیں، ہم ان فائنڈنگز کو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاہم ہم نے حکومت پر فیصلہ چھوڑ دیا کہ وہ آئی ایس آئی فائنڈنگز کو کاپی کرے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ،مزید افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں ، جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ور مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا ، حکومت کے خلاف آئینی ،قانون اور سیاسی معاملے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک رجیم چینج کا حصہ تھے ، دنیا بھر میں امریکہ کی رجیم چینج کے حوالے سے دیئے گئے اور اسے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا ، پاکستان کے اداروں اور بالخصوص لیڈر شپ کو نشانہ بنایا گیا ، یہ چیز کوغداری اور رجیم پہنچ سے جوڑ دیا گیا ، یہی وقت تھا کہ ارشد شریف کئی صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا ۔ جس کی حقیقت بہت حقائق واضح ہوچکی تھی ، ذہن سازی کے ذریعے افواج پاکستان اور قوم کو سپر اور لیڈر شپ میں نفرت پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ،پاکستان اور ملکی اداروں کو دنیا میں بدنام کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔ ایک ٹی وی چینل نے افواج پاکستان اور لیڈرشپ کے حوالے سے جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دینے میں سپن ڈاکٹر کاکردار ادا کیا ، ایجنڈا سٹینگ کے ذریعے فوج کے خلاف ایک مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا ، نیشنل سکیورٹی کی میٹنگز اور اعلامیہ کو غلط انداز میں پیش کیا گیا جہاں تک دوسری این آئی سی میٹنگ میں اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر چلائی گئی ، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو کہ آئین پاکستان کے خلاف ، لفظ نیوٹرل کو گالی بنادیا گیا ،اس تمام جھوٹے بیانیے اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے باوجود ادارے اور آرمی چیف نے تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ہر ممکن کوشش کی گئی کہ سیاسی لیڈران اپنے معاملات آپس میں بیٹھ کر فوجی مسائل کو حل کریں ، لیکن ایسا نہیں ہوسکا ، یہاں تک کہا گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا ، سوال یہ ہے کہ جوفارن آفس سائفر پراسیس کررہا تھا کیا اس نے چھپایا؟ جو سائفر کو ہینڈ ل کرنے کے ذمہ دار تھے ، ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا اگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تو کیوں نہیں لیا گیا اور ان کے نام کیوں نہیں لئے جاتے ،
لفظوں کے پیر پھیر اور گمراہ کن جھوٹی خبروں اور لیڈر شپ کو غدار ٹھہرا کر کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا ، مرحوم ارشدشریف دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے بھی سائفر کے حوالے سے بات کی اور سخت باتیں بھی کی گئیں ، ارشد شریف نومبر 2021سے ملکی اداروں پر تنقید کررہے تھے ۔ انہوں نے ان اداروں کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے مختلف پروگرامز بھی کئے اسکے باوجود ان کے حوالے سے ہمارے دلوں میں ان کیلئے نامنفی جذبات نہ تھے اور نہ ہیں، کئی دیگر صحافیوں نے بھی اس پر بات چیت کی ،لیکن وہ پاکستان میں ہی رہے ،سب کو بولنے کا آئینی حق ہے ، تمام سائفر ڈرامہ کے دوران جب بھی ہم نے صحافیوں سے بات کی ان سے یہی کہا گیا کہ بغیر ثبوت کے من گھڑت کہانی کی بنیاد کو پر غدار اور سازشی کے الزامات نہ لگائے جائیں ، فوج کے سیاسی سٹانس کو متنازع بند بنایا جائے ، دیکھنا یہ ہے کہ مرحوم ارشد شریف کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حقائق کیا ہیں، 5اگست 2022کو خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے اینکر ارشد شریف کے حوالے تھریٹ جاری کیا گیا ، ہماری اطلاع کے مطابق وزیراعلیٰ کے پی کے کی خاص ہدایت پر تھریٹ جاری کیا گیا ، اس پر شبہ ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں تحریک پاکستان طالبان کے گروپ نے بھوارمیں ایک میٹنگ کی جو کہ ارشد شریف کو راولپنڈی میں ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں، اس حوالے سے وفاقی حکومت اور سکیورٹی اداروں سے مزید کسی قسم کی معلومات نہیں شیئر کی گئی ۔ کہ کیسے اور کس نے کے پی حکومت کو اطلاعات مہیا کی ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا جس کا مقصد شاید ارشد شریف کو ملک چھوڑے پر آمادہ کرنا تھا ،اطلاعات یہ تھیں کہ ارشد شریف ملک کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے ، مسلسل ان کو خطرہ لاحق رہنے کے بارے میں آگاہ کیا ، 8اگست 2022کو شبہاز گل کے فوج کے خلاف بغاوت پر متنازع بیانات مکافات فکر ہیں،
اسے ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف قرار دیا ہے ، 9اگست کو شہباز گل گرفتار کیا گیا ، اس متنازع سپیشل ٹرانسمیشن کے حوالے سے ٹی وی چینل کے سینئر ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ حماد سے تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ مذکورہ ٹی وی چینل کے چیف ایگزیکٹو نے شہبازگل کی گرفتاری کے فوراً بعد حماد یوسف کو ہدایات دی کہ ارشد شریف کو جلد ازجلد پاکستان سے باہر بھیجا جائے ، اس کے جواب میں حماد یوسف نے بتایا کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی کیلئے روانہ ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے متواتر بیانیہ بنایا جاتا رہا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کردیا جائے ، 19اگست 2022کو 4بجکر 40منٹ پر کراچی سے ارشد شریف سے دبئی کیلئے ائیرٹکٹ بک کی گئی جو کہ اے آر وائے گروپ کے اسٹینٹ منیجر پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن عمران خان کے کہنے پر فضل ربی نامی ٹریول ایجنٹ نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے وصل کرنے کے بعد بک کی ، اس ٹریول پلان کے مطابق 4ستمبر 2022کو ارشد شریف کو پاکستان واپس آنا تھا ، 10اگست ارشد شریف باچا خان پشاور ایئر پورٹ سے ایمریٹس انٹرنیشنل کی پرواز EK67کے ذریعے صبح چھ بجکر 10منٹ پر دبئی کیلئے روانہ ہوئے ارشد شریف کو کے پی حکومت نے اس دوران مکمل پروٹوکول فراہم کیا ، انہیںچیف آف منسٹر سیکرٹریٹ سے ان کے پروٹوکول آفیسر عمر گل آفریدی نے گرین نمبر پلیٹ ڈبل کیبن میں ایئر پورٹ پہنچایا ، وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے پی کے سٹاف نے تمام کاو¿نٹر پر ارشد شریف کی معاونت کی اورانہیں فلائیٹ تک پہنچایا ۔ اس حوالے سے اداروں کو ارشدشریف کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی ، اگر حکومت چاہتی تو ایف آئی اے کے ذریعے روک سکتی تھی ، ارشد شریف دبئی میں تب تک رہے جب تک ان کے پاس ویزا تھا ، ارشدشریف دبئی سے کینیا کی جانب اس وقت روانہ ہوئے ، جب ان کا دبئی کا ویز ایکسپائر ہونے والا تھا ہماری اطلاع کے مطابق کسی نے سرکاری سطح پر ارشد شریف کو دبئی سے نکلنے پر مجبور نہیں کیای ، وہ کون تھے جنہوں نے ارشد شریف کو کینیا جانے پر مجبور کیا ،اس سوال کا جواب ملنا چاہیے ، سوال یہ ہے کہ یہاںسے دبئی روانگی سے منسک دستاویزی معاملات کو کس نے سر انجام دیا ، متحدہ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام وطعام کا کون انتظام کررہا تھا ؟ کس نے یقین دلایا کہ ان کی جان کینیا جیسے ملک میں محفوظ ہے؟ ایک بیانیہ بنایا گیا کہ ارشد شریف کو دبئی سے لایا گیا تو کینیا جیسے ملک میں مفت ویزا فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ دنیا میں 34ایسے ممالک ہیں جہاں پاکستانی ویزا فری جاسکتے ہیں،
ارشد شریف کینیا پہنچے اور ان کو میزبانی کون کررہا تھا ،پاکستان میں کسی سے رابطہ تھا، ارشدشریف کی وفات سے منسلک کردار وقار احمد اور خرم احمد کون تھے ؟ان کا ارشد سے کیا رشتہ تھا ؟ کیا وہ انہیں پہلے سے جانتے تھے یا کسی نے یہ رابطہ استوار کردیا ؟ کچھ لوگوںنے ارشد شریف کے لندن میں ملاقات کے دعوے کیے ، وہ دعوے ان سے کس نے کرائے ، کن بنیادوں پر وہ دعوی کیے گئے ؟ کیا یہ دعوے بھی فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ تھے ، ارشد شریف کی وفات دور دراز ملک میں ہوئی ، ان کی وفات کی خبر سب سے پہلے کس کو اورکسے دی ؟ کینیا پولیس نے ارشد شریف کو پہچانا تک نہیں، کینیا پولیس نے اس کیس میں اپنی غلطی کو تسلیم کیا ، دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی میسٹیکن شناخت پر ٹارگٹ کیا گیا ؟سب سے والات وجوابات طلب ہیں۔ اس افسوسناک واقع کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات بہت ضروری ہے اس کے لئے وفاقی حکومت سے ہائی لیول کی تحقیقات کی درخواست کی ہے ، اگراس درخواست میں بین الاقوامی ایکسپرٹس اور آئی ٹی ایکسپرٹس اور دیگر کی ضرورت ہوتو انہیں بھی شامل کرنا چاہیے ۔ ارشد شریف کی ناگہانی موت کے بعد سوشل میڈیا کے لوگوں نے فوراً الزامات لگانا شروع کردیئے ، اور افواج کی طرف توڑنا شروع کردیئے ،پاک فوج سے کون فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ، یہ دیکھنا ضروری ہے ،ارشدشریف کی افسوسناک وفات پر واقع نے پوری قوم کو دکھ میں مبتلا کردیا ہے ، تمام تفصیلات آپ کو بتادیں آپ پر فرض ہے کہ ان تفصیلات کی تہہ تک پہنچیں اور تمام کرداروںکو سامنے لائیں اور حقائق قوم کے سامنے رکھنے چاہیے ،ہم سب کو انکوائری رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے ، جب تک کوئی حتمی انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آتی ، کسی پر الزام تراشی کرنا غیر مناسب بات ہوگی ، ہم ایک خوددار اور آزاد قوم ہیں، ہم میں سے ہر ایک پاکستان کی ترقی اور امن کیلئے کردار ادا کرتا ہے ، آپ سے گزارش ہے کہ ملکی اداروں پر اعتماد رکھیں ، اگر ماضی میں کوئی غلطیاں ہوئیں تو انہیں درگزر کردیں ، ہم 35،40سال کی عمر میں غداری کا توپ گلے میں لٹکا کر گھر نہیں جانا چاہتے ،ہم کمزور اور غلطیاں ہوسکتی ہیں،
مگرغدار اور سازشی نہیں ہوسکتے۔ اس کا ادراک سب کو کرنا چاہیے ، فوج عوام کے بغیر کچھ نہیں ،مخصوص اخباروںنے کہا تھا کہ کہ اگر پاکستان کو کمزاور کرنا چاہیے تو پہلے افواج پاکستان کو کمزور کریں ، ہماری شناخت اور پہچان سب سے پہلے پاکستان ہے ،اس سے پہلے کچھ نہیں ہم ایک ادارے کے طور پر قوم کو مایوس نہیںکریں گے ، نہ کیا اور نہ ہی کریں گے ۔ ہمارا قوم سے وعدہ ہے کہ یہ وقت ،اتحاد ،تنظیم اور نظم وضبط کا ہے ، ہمیں ملکر پاکستان کو جعلی سازشوں سے نکالنا ہے اور ہم نکلیں گے ، سوالات کے جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا جس بیانیے کو پروان چڑھایا اور تقویب پہنچائی گئی ،اس کی تمام تفصیلات سے آگاہ کرچکا ہوں۔ بھارتی جارحیت کے حوالے سے انہوں نے کہا 27اکتوبر مقبوضہ کشمیر سمیت پوری دنیا میں یوم سیاہ منایا جارہا ہے ، آج ہی دن 1947میں بھارتی فوج نے کشمیر میں غالبانہ قبضہ کیا ، اس دن سے آج تک کشمیری ان کا دلیری سے مقابلہ کررہے ہیں، پاکستانی قوم کل بھی اپنے کشمیری بہن بھائیوں کیساتھ کھڑی تھی ،آج بھی اور ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑی رہے گی ، ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی منشا کے مطابق حل کیا جائے ۔
اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹجنرل ندیم انجم نے کہا کہ مجھے آپ لوگوں کو یہاں دیکھ کر حیرانی ہے ، سب کو حیرانی دیکھ سکتا ہوں ، میری ذاتی تصویر ، تشہیر اور پالیسی ایک سال سے واضح ہے اس کام کی نوعیت یہ ہے کہ مجھے اور میرے کام کو پس منظر میں نہیں آنا ،آج میں آپ کے پاس اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ اپنے ادارے کیلئے آیا ہوں ، اس ادارے کے جوانوں نے اپنی جان اپنے ملک اور ادارے کیلئے پیش کیں ، میں بالخصوصی اپنی ایجنسی کیلئے آیا ، ایجنسی کے افسران ملکی دفاع کیلئے 24گھنٹے اپنے کام کو سرانجام دے رہے ہیں، جب ان کو چھوٹ کی بنیاد پر بلاجواز تنقید اورتضحیک کا نشانہ بنایا جائے ، بحیثیت اس ایجنسی کے سربراہ کے طور پر خاموشی لینا چاہوں گا ، مانتا ہوں کہ چھوٹ اتنی آسانی اور روانی سے بولا جائے جس سے ملک کا فتنہ وفساد برپا تو سچ کی لمبی خاموشی بھی ٹھیک نہیں ، کوشش کروں گا کہ بلاضرورت سچ نہ بولوں ، قوم نے میرے منصب اور ملک پر یہ بوجھ ڈالا کہ میرے پاس موجود رازوں کو سینے میں دباکر قبر میں چلا جاو¿ں ، جہاں ضرورت سمجھی وہاں ان رازوں کو آپ کے سامنے ضرور رکھوں گا ، تاکہ ملک اور ادارے قائم رہ سکے ، لسبیلہ میں کور کمانڈر اور جوانوں نے ملکی مٹی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ،ان کا مذاق بنایا گیا انہوں نے کہا کہ اس میں دہرائے نہیں کہ کسی کو میر جعفر یا میر صادق کہیں اگر آپ کے شواہد نہ وہں تو اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، یہ بالکل 100فیصد جھوٹ پر بنایا جھوٹا نظریہ ہے ، یہ نظریہ بنایا کیوں کیا گیا ؟ اس لئے نہیں کہ میں نے ڈی جی آئی ایس پی آر اور آرمی چیف نے غداری کی ، اس لئے نہیں کہ غیر آئینی وقانونی کام کیا گیا ہے بلکہ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے غیر آئینی ،غیر قانونی کام کرنے انکار کردیا ہے ، پچھلے سال اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا تھا یہ ہم نے اپنے آپ کو آئینی کردار پر محدود رکھنا ہے ، یہ فرد واحد کا فیصلہ ،آرمی چیف کا فیصلہ نہیں بلکہ اس میں ادارے کے اندر بہت بحث ہوئی ، اس نتیجےمیں پہنچے کہ ملک اور ادارے کا مفاد اسی میں ہے کہ ہم اپنے آپ کو آئینی کردار میں محفوظ کریں، سیاست سے بہار نکلیں میرا یمان ہے کہ میری ایجنسی ہو یا ملک پاکستان میں موجود کسی بھی فرد کا کسی سیاسی سوچ پر مساوی حق ہونا چاہیے ، اسے کسی ایک سوچ اور نام کے ساتھ منسلک نہیں ہونا چاہیے ، یہی اس ادارے کی شان اور پہچان ہے ، گزشتہ پچھلے سال اور موجودہ سال مارچ میں ہم پر بہت پریشر تھا اور مختلف طریقوں سے پریشر ڈالا گیا ،
میں نے اور آرمی چیف نے فیصلہ کیا ہمیں خود کو آئینی کردار پر محدود رکھنا ہے ، یہ بات واضح کردوں کہ جنرل باجوہ چاہتے ہیں کہ آخری چھ ، سات ماہ سکون سے گزاریں وہ یہ فیصلہ نہ کرتے تو اب نومبر تک وہ ریٹارئرڈ ہوکر سکول سے گزارتے لیکن انہوں نے ملک کے حق میں فیصلہ کیا انہوں نے ملک کیلئے اپنی ذات بھی قربان تھی ، میں انہیں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ جائیں توان کی لیگسی میں ایک ایسا ادارہ ہو جس کا کانسٹیٹو شنل رول ہو ، مارچ کے مہینے میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدمت ملازمت کی پیشکش بھی گئی ، یہ بہت پرکشش پیشکش تھی ،انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا ، ان کا فیصلہ تھا کہ ملک کو متنازع فیصلے سے ہٹاکر آئینی فیصلہ بتانا ہے ، آپ سب کو سوال کرنے کا آئینی حق ہے اور اسے عزت دیتا ہوں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کا دل مطمئن ہے اور سپہ سالار غدار ہے ،توماضی قریب میں اتنی تعریفوں کے پل باندھے گئے ، عجیب بات ہے کہ اگر سپہ سالا ر غدار ہے تو پھر بھی اس مدت ملازمت میں رہیں ،اگر وہ واقعی غدار ہیں تو ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں مجھے آپ کے ملنے پر اعتراض نہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ملک کے ہر شہری کی آواز پر لبیک کہیں ،یہ نہ کریں کہ رات کی خاموشی میں بند دروازہ پر ملیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دن کی روشنی میں آرمی چیف کو غدار قرار دیں آپ کے قول وفعل میں اتنا کھلا تضاد ٹھیک نہیں ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے ماتحت ادارہ ہیں پہلے بھی پریس کانفرنس میں کہہ چکا کہ اگر کوئی فوج کے خلاف بات کرے اظہار رائے کا حق پر ملکی آئین اجازت نہیں دیتا۔ اگر کوئی ملک کے اداروں کے خلاف انگلی اٹھا رہا ہے تو ادارے اس کے خلاف ایکشن لیں گے۔ اس مد میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوا تو حکومت کے ذریعے اسے ختم کیا اور حکومت اس بارے میں جو بھی ایکشن لے وہ اس کی صوابدید ہے۔ ہمارا کسی کو گرفتار کرنا صوابدید نہیں ہے۔
ہمارے پاس ارشد شریف کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں تھی۔ کے پی حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تھا ہمیں کوئی معلومات نہ تھیں نہ ادارے کو ایسی معلومات فراہم کی گئیں۔ حکومت پاکستان مکمل مطمئن نہیں ہے وفاقی حکومت نے ایک ٹیم بنائی جو مکمل معلومات کا جائزہ لے گی۔ وفاقی حکومت نے جوڈیشل کمیشن بھی بنایا میں نے دانستہ طور پر آئی ایس آئی کے ممبران کو ان دونوں فورمز سے نکالا تاکہ قوم کے سامنے غیر جانبدار اور سو فیصد شفاف تحقیقات ہوں۔ جو بھی نتیجہ آئے گا ڈی جی آئی ایس پی آر اس حوالے سے آگاہ کریں گے۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ تعلقات اور انفارمیشن کو میری نظر میں غلط رنگ نہیں دینا چاہئے۔ تنقید ہر ایک کا حق ہے ہمیں تنقید پر ایک ادارے کے طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب تنقید سے بالاتر ہو کر الزام تراشی کی جائے اور پروپیگنڈہ پر چلی جائے۔ ہمیں ایسی چیزوں سے گریز کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس ایسا فورم نہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ہر ایک کو جواب دے سکیں۔ نہ ہی ہمیں یہ سوٹ کرتا ہے نہ کرنا چاہئے۔ اداروں کا دفاع حکومت وقت کرتی ہے تنقید کا کوئی مسئلہ نہیں۔