تل ابیب ( عکس آن لائن )اسرائیل کی پارلیمنٹ، کنیسٹ نے متنازعہ عدالتی اصلاحات کے متعدد قوانین میں سے پہلا منظور کرلیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس دوران تبدیلیوں کے مخالف مظاہرین نے ایک اور دن احتجاج کیا۔
ان مظاہروں کا مقصد اس بات پر خطرے کی گھنٹی بجانا تھا کہ ملک میں آمریت آرہی ہے۔وزیر اعظم نیتن یاہو کے اتحاد نے اس قانون سازی کی منظوری دی ہے جو اسرائیلی رہنما کو ان کے بدعنوانی کے مقدمے اور قانونی تبدیلیوں میں ان کے ملوث ہونے سے متعلق مفادات کے تصادم کے الزامات پر حکمرانی کے لیے نااہل تصور کیے جانے سے بچا دے گی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون نیتن یاہو کے لیے تیار کیا گیا ہے، یہ قانون بدعنوانی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور عدالتی اصلاحات پر اسرائیلیوں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر رہا ہے۔
ان قانونی تبدیلیوں نے معاشرے کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک گروہ نئی پالیسیوں کو اسرائیل کی جمہوریت پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قرار دے رہا ہے۔ دوسرا گروہ سمجھتا ہے کہ ملک کو ایک لبرل عدلیہ کے ذریعے پامال کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاھو حکومت کے منصوبے نے اسرائیل کو اپنے بدترین گھریلو بحرانوں میں سے ایک میں ڈال دیا۔ یاد رہے اپوزیشن کی جڑیں معاشرے کے وسیع طبقوں میں ہیں جن میں کاروباری رہنما اور سینئر قانونی اہلکار بھی شامل ہیں۔
یہاں تک کہ فوج بھی سیاسی جدوجہد میں الجھ گئی ہے، کیونکہ تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ ریزرو رضا کاروں نے خدمات انجام دینے سے انکار کردیا ہے۔ اسرائیل کے بین الاقوامی اتحادیوں نے بھی اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کردیا ہے۔مظاہرین نے ایک اہم بندرگاہ کے قریب اہم سڑکوں کو بلاک کردیا اور ٹائروں کو آگ لگا کر مظاہرہ کیا۔ نیتن یاہو کی حکومت نے اس ماہ کے شروع میں اس بحران کو کم کرنے کے لیے ایک سمجھوتے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ نیتن یاھو نے کہا کہ یہ سمجھوتہ تبدیلیوں کی رفتار کو کم کر دے گا۔
اور بیشتر مجوزہ تبدیلیوں کو اپریل میں ایک ماہ کی چھٹی سے آگے بڑھا دے گا۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس نے قانون کو مزید جامع بنانے کے لیے اصل مسودہ قانون میں ترمیم کی ہے لیکن مخالفین نے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تبدیلی ایک رسمی ہے اور ججوں کی تقرری پر حکومت کا کنٹرول برقرار رکھے گی۔ یہ اقدام اگلے ہفتے منظور ہونے کی توقع تھی۔ نیتن یاہو کے تحفظ کے بل کو 120 نشستوں والی کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں 47 کے مقابلے میں 61 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔