آزادی صحافت

آزادی صحافت کے انڈیکس میں بھارت افغانستان اور لیبیا سے پیچھے

دبئی(عکس آن لائن)پریس کی آزادی کا خیال رکھنے والی تنظیم “رپورٹرز ودآٹ بارڈرز” کے ذریعہ شائع ہونے والے سالانہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان 11 درجے نیچے گر گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس انڈیا میں میڈیا کی کثرت کے خاتمے کا مشاہدہ کیا گیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق سالانہ انڈیکس رپورٹ میں پاکستان 150 ویں نمبر پر ہے۔ افغانستان کا نمبر 152 واں ہے۔ 180 ملکوں کی اس فہرست میں بھارت کا نمبر 161 آیا ہے۔رپورٹ کے خلاصے میں بھارت اور کچھ دوسرے ملکوں کا حوالہ دیا گیا جہاں آزادی صحافت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صورتحال تین دیگر ملکوں میں پریس کی آزادی ایک مسئلہ سے انتہائی خراب سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ان تین ملکوں میں تاجکستان ایک مقام نیچے گر کر 153 ویں نمبر پر آگیا۔

بھارت 11 درجے تنزلی کے بعد 161 ویں نمبر پر چلا گیا۔ ترکی 16 درجے نیچے گرگی اور 165 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز نے رپورٹ کے انڈیا سیکشن میں کہا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نریندر مودی کی قیادت میں آزادی صحافت کے بحران کا شکار ہے۔ مودی 2014 سے ملک کی صدارت کر رہے ہیں اور اگلے سال مسلسل تیسری مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہونے کے خواہاں ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ میڈیا کے خلاف تشدد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مودی کی پارٹی کی قیادت میں بھارت میں میڈیا کی آزادی بحران سے دوچار ہوگئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2000 کی دہائی کے وسط میں جب مودی پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تو بھارت 2013 کے آزادی صحافی کے انڈیکس میں 140 ویں نمبر پر تھا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس کی اہم مثال بلاشبہ مکیش امبانی کی قیادت میں ریلائنس انڈسٹریز گروپ ہے جو آج مودی کے ذاتی دوست بن چکے ہیں اور جو 70 سے زیادہ میڈیا آٹ لیٹس کے مالک ہیں اور کم از کم 800 ملین ہندوستانی ان کے میڈیا آوٹ لیٹس سے جڑتے ہیں۔ گوتم اڈانی بھی این ڈی ٹی وی کے حوالے سے مودی کے قریب ہیں۔ ان مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت میں میڈیا میں تکثیریت کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔

حالیہ برسوں میں بھارتی حکام پر آزاد میڈیا کی آوازوں اور حکومت پر تنقید کرنے والی تنظیموں کو دبانے کا الزام لگایا گیا ہے۔وفاقی ٹیکس حکام نے دی وائر اور نیوز کلک جیسی مقامی خبر رساں تنظیموں کے ساتھ ساتھ آکسفیم انڈیا اور سینٹر فار پالیسی ریسرچ (سی پی آر)جیسی غیر منافع بخش تنظیموں پر بھی چھاپے مارے ہیں۔کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے لکھا ہے کہ یہ وقت ہے کہ ہمارا سر شرم سے جھک جائے۔ ہندوستان عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں پیچھے ہوگیا اور 180 ملکوں میں 161 ویں نمبر پر آگیا ہے۔حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے نائب صدر بیجینت پانڈا نے کہا کہ انڈیکس میں نئی درجہ بندی مضحکہ خیز ہے اور اس میں بھارت مخالف تعصب برتا گیا ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں استفسار کیا۔ کیا واقعی؟ ہم رینکنگ میں لیبیا اور افغانستان سے پیچھے ہیں؟

ویمن پریس اتھارٹی آف انڈیا، پریس کلب آف انڈیا اور پریس ایسوسی ایشن نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان میں بھی ملک میں آزادی صحافت کی سمت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ترنمول کانگریس پارٹی کی ایم پی مہوا موئترا نے لکھا ہے کہ جب آپ کو گڈی میڈیا مل سکتا ہے تو کس کو پریس کی آزادی کی ضرورت ہے۔ایک متعلقہ سیاق و سباق میں رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز کے ایشیا اور پیسیفک بیورو کے سربراہ ڈینیل باسٹرڈ نے نیوز لانڈری کو بتایا کہ ملک کی درجہ بندی کا تعین کرنے میں صرف گورننس کی شکل ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹرز ودآٹ بارڈرز کی درجہ بندی سیاسی نظام کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ 180 ممالک یا ریاستوں کی صورت حال کا جائزہ لیتی ہے۔ درجہ بندی پانچ اشاریوں کے تجزیے پر مبنی ہے۔ ان پانچ اشاریوں میں سیاسی تناظر، عدالتی فریم ورک، اقتصادی تناظر، سماجی و ثقافتی تناظر، اور سلامتی کا تناظر شامل ہیں۔ اس جائزہ میں کل 117 سوالات اور ذیلی سوالات رکھے گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں