رانا ثناءاللہ

سائفر کیس میں سزا ختم ہوئی تو اس کا رہائی سے تعلق نہیں،رانا ثناءاللہ

اسلام آباد (عکس آن لائن) وزیر اعظم کے مشیر سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ سائفر کیس میں سزا ختم ہوئی تو اس کا رہائی سے تعلق نہیں، پاکستان کے قانون میں شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے،مجھے نہیں لگتا کہ مذاکرات کا راستہ اب ممکن رہا ہے،بانی پی ٹی آئی جب حکومت میں تھاتو ہمارا نام مٹانے کی بھرپور کوشش کی، اب پھر اگر بات نام ونشان مٹانے پر آگئی ہے تو یہ وقت بتائے گا کہ کس کا نام ونشان مٹتا ہے،لوگوں کو پتا ہونا چاہئے کہ تباہی کے راستے پر بضد کون تھا؟نوازشریف نے 21 اکتوبر کو ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی آفر کی تھی۔ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہا کہ ہمیشہ سے رہا ہے جو فریق بھی عدالت میں جاتا ہے اس کی کوشش خواہش ہوتی ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہونا چاہیئے،

میری رائے میں توہین عدالت کا قانون ہونا چاہئے ورنہ لوگ ججز کی عزت واحترام کو مٹی میں ملا دیں گے، لیکن توہین عدالت کی سزا کا تعین ہونا چاہیئے یہ نہیں کہ اگر سیاستدان ہے تو پوری زندگی کیلئے نااہل ہوجائے ، پہلے مرحلے میں وارننگ پھر دوسری تیسری اسٹیج پر سزا ہونی چاہیئے۔سائفر کیس میں سزا ختم ہوئی تو اس کا رہائی سے تعلق نہیں، پاکستان کے قانون میں شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے، شک کسی معمولی بات پر بھی ہوسکتی ہے، ججز بھی انسان ہیں ان کے اپنے جذبات اور سوچ ہے، اس کا بھی شک سے تعلق ہوتا ہے، ایک وقت ہوتا ہے کہ بالکل شک نہیں پڑتا اور دھڑادھڑسزا ہوجاتی ہے، ایک وقت آتا ہے کہ شک پڑنا شروع ہوجاتا ہے، ہوسکتا ہے جس طرح سائفر کیس میں بھی شک پڑگیا ہے، لیکن یہ کیسز ، مجھے بتائیں جو آدمی قوم کو لیڈ کررہا ہو، جو لیڈر ہونے کا دعوی کرے، کیا اس کو عدت جیسی سرگرمی میں ملوث ہونا چاہیئے؟لوگ کہتے ذاتی معاملہ ہے لیڈر کا معاملہ ذاتی نہیں ہوتا، خاور مانیکا عدالتوں میں جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے مقدمات بھی قائم ہورہے ہیں، جو ٹویٹ کیا ہے اس پر مقدمہ تو بن سکتا ہے، بنایا جاسکتا ہے، عمران خان 2011سے شروع ہوا اب 2024ہے، ملک کو اس مرحلے پر لے آئے ، میں پہلے بھی کہہ چکا کہ یہ بندہ ملک کو کسی حادثے سے دوچار کردے گا، سیاسی کشیدگی کے بڑھنے میں اب کوئی گنجائش باقی نہیں ہے، کشیدگی ختم کرنے کے دو راستے ہیں، ایک جمہوری راستہ جو مذاکرات سے شروع ہوتا ہے، دوسرا راستہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا سب کو جیلوں میں ڈالوں گاوہ تصادم کا راستہ ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ مذاکرات کا راستہ اب ممکن رہا ہے۔ اسد قیصر یا علی امین گنڈا پور کو نظر انداز اس لئے کیا جارہا تھا کہ وہ متوازن بات کرتے ہیں لیکن اب ان کی باتیں عمران خان کو خوش کرنے کیلئے ہیں، جو تصادم کی طرف جاتی ہیں، اگر ڈائیلاگ کا راستہ نہیں ہوگا تو دوسرا راستہ تصادم کا ہے، تصاد م کے راستے میں جس سے جو سکے گا وہ کرے گا، اگر علی امین گنڈا پور گورنر کو اٹھا کر باہر پھینکے گا تو اسے بھی پھینکا جاسکتا ہے۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نوازشریف جب 21اکتوبر کو واپس آئے تو کہا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے ، لیکن دوسری طرف کوئی مثبت جواب نہیں ، کہا گیا میں ان کے ساتھ بات نہیں کروں گا۔ اگر بات نام ونشان مٹنے پر آگئی ہے تو پھر کسی نہ کسی کا تو نام ونشان مٹنا ہے، وقت بتائے گا کہ کس کا نام ونشان مٹتا ہے اور کس کا رہتا ہے، لیکن نام ونشان مٹنے کی بات کس جانب سے ہوئی یہ لوگوں پتا چلنا چاہئے کہ تباہی کے راستے پر بضد کون تھا، عمران خان حکومت میں رہا تو ہمارا نام مٹانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا ، اب وہ دوسرے طریقے سے آخر تک جانا چاہتا ہے۔