بیجنگ (عکس آن لائن) بیجنگ میں “جمہوریت: تمام انسانیت کے لیے مشترکہ قدر” کے موضوع پر تیسرا بین الاقوامی فورم منعقد ہوا۔ چینی اور غیر ملکی مہمانوں نے “ڈیموکریسی اور گورننس ماڈرنائزیشن” اور “کثیر قطبی دنیا میں جمہوریت اور عالمی گورننس” جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ “جمہوریت کا حقیقی مطلب کیا ہے؟” اور “باہمی سیکھ کا طریقہ کار ” سمیت موضوعات فورم کے ” ہاٹ ٹاپکس” رہے۔
اسی دن جنوبی کوریا میں امریکہ کی زیر قیادت نام نہاد سمٹ فار ڈیموکریسی کا اختتام ہوا اور اس اجلاس میں جمہوریت کو انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کی بجائے ایک بار پھر ‘جمہوریت’ کے آڑ میں ایک حاکم کے لہجے میں دوسرے ممالک کے نام نہاد ‘جمہوری مسائل’ کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور دھمکیاں دی گئیں۔
جمہوریت ،انسانی تہذیب کی ترقی کی ایک اہم علامت ہے، جمہوریت تاریخی ورثے اور ترقی کے ثمرات سے پایا جانے والا سیاسی نظام ہے۔مختلف ممالک میں جمہوریت کی جڑیں اپنی تاریخی و ثقافتی روایات میں پیوست ہیں اور اپنے لوگوں کے تحقیقات اور دریافت میں پروان چڑھتی ہیں۔ جمہوریت کا مقصد تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کا تحفظ اور فروغ ہے اور اسے اتحاد میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے اور پھر یہ بھی کہ چند ممالک کے لیے ان کے تنگ نظری کے حامل سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ایک آلہ بھی نہیں بننا چاہیے.
جیسا کہ نائیجیریا کے اخبار لیڈرشپ کے ہوسی زبان کے ایڈیٹر عبدالرزاق یاہوزا نے اخبار کی ویب سائٹ پر ایک تبصرے میں نشاندہی کی کہ “حقیقی جمہوریت وہ ہے جس میں لوگوں کو اپنے نظام اور ترقی کے راستے تلاش کرنے کی اجازت دی جائے، بجائے اس کے کہ جمہوریت کے بہانے ایک ملک دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرے۔ ”
حالیہ برسوں میں، عالمی صورتحال میں مسلسل افراتفری ، مغربی طاقتوں کی غنڈہ گردی اور خود غرضی نے بین الاقوامی برادری کو تیزی سے اس بات پر متفق کیا ہے کہ “جمہوریت کی مشترکہ خصوصیات ہیں، لیکن کوئی واحد ماڈل نہیں ہے”۔اس لیے بین الاقوامی تعلقات کی حقیقی جمہوریت کا مطالبہ زوروں پر ہے.
چین دوسرے ممالک کی ترقی کے راستوں کا احترام کرتا ہے ، اندرون ملک ہمہ گیر عوامی طرز جمہوریت پر عمل کرتا ہے اور عالمی جمہوری حکمرانی کے عمل میں اپنی مخصوص خصوصیات کے ساتھ جمہوری عمل کی ایک ممتاز مثال بن گیاہے۔ بلغاریہ کی سابق نائب وزیر اعظم ڈینیلا پوبیوا نے کہا کہ دنیا میں جمہوریت کی صرف ایک ہی شکل نہیں ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کس قسم کی جمہوریت ہے، جب تک لوگوں کو اس کی ضرورت ہے، یہ کامل ہے. انہوں نے نشاندہی کی کہ چینی عوام قدیم زمانے سے ہی جانتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور دوسرے ممالک کی جانب سے چین کو جمہوریت پر عمل کرنے کا طریقہ سکھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جمہوریت ایک تصوراتی کھیل نہیں ہونا چاہیے جو مغرب نے مفاد پرستانہ مقاصد کے لئے کھیلا ہے ، اور مغربی طرز کی “جمہوری اصطلاحات” انسانوں کی ضرورت نہیں ہیں۔ جمہوریت کی خوبیوں کا اندازہ لگانے اور جانچنے کے اصل اشاریوں میں یہ شامل ہونا چاہیے کہ داخلی طور پر لوگ خود کو محفوظ اور خوشحال محسوس کریں، مستقبل سے پر امید ہوں ، بیرونی طور پر تہذیبوں کے تنوع کا احترام کیا جائے، دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ ماحول میں رہیں، ایک دوسرے کی مدد کریں ، ایک دوسرے سے سیکھیں اور بین الاقوامی برادری کے سامنے اپنی ذمہ داریوں اور اخلاقیات سے مستعدی کے ساتھ نمٹیں ۔
اٹلی کے سابق وزیر اعظم میسیمو ڈی علیما نے “جمہوریت: تمام انسانیت کے لیے مشترکہ قدر” کے موضوع پر تیسرے بین الاقوامی فورم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “مغربی دنیا میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت ایک ایسی قدر ہے جو صرف مغرب سے تعلق رکھتی ہے اور اس طرح جمہوریت ایک بینر بن گئی ہے جب کہ مغرب باقی دنیا کی مخالفت میں ہے اور کچھ لوگ اسے ایک نئی سرد جنگ، ایک نئے” بائی پولر ٹکراؤ”اور تمام بین الاقوامی تعاون کو دبانے کے لیے استعمال کرناچاہتے ہیں۔ ”
جمہوریت تمام انسانیت کی مشترکہ قدر ہے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے متوقع جمہوری بین الاقوامی تعلقات میں جمہوریت کے حصول، ترقی اور ادراک میں تمام ممالک، بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی کوششوں کا مکمل احترام کرنا چاہیے ، تمام ممالک کے عوام کے اپنے ترقیاتی راستے منتخب کرنے کے حق کا احترام کرنا چاہیے، تقسیم پیدا کرنے، تعصب پھیلانے اور جمہوریت کے نام پر امن کی تباہی کی مخالفت کرنی چاہیے، باہمی احترام، ، انصاف اور جیت جیت تعاون پر مبنی ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کی تعمیر کو فروغ دینا چاہیے اور انسانیت کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دینا چاہیے ۔