اسلام آباد(عکس آن لائن) سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کر سکتا وہ گھر بیٹھ جائے، تنقید اور جھوٹ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے، یہاں ایک کمشنر تھے اور انہوں نے جھوٹ بولا، تمام میڈیا نے چلایا، باہر ملکوں میں ہتک عزت پر جیبیں خالی ہو جاتی ہیں، صرف سچ بولنا شروع کریں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سزا جزا کو چھوڑیں،وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے،صرف میں نہیں اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لیے کی جائے ،ذاتی طور پر ہر جج اپنے آپ کو مضبوط کرلے کہ کوئی رابطے کی کوشش نہ کرے، یا پھر کوئی ڈر ہوکہ کرے گا تو یہ ہوگا، اگر میں کمزور ہوں تو وہ کامیاب ہو جائے گا ۔
منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افنان بنچ کا حصہ ہیں۔ دوران سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں تجاویز جمع کرا دیں، اس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں، ججز کی ذمہ داریوں اور تحفظ سے متعلق مکمل کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے۔ تجویز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس توہین عدالت کا اختیار موجود ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کو کسی قسم کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے تھی، ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط میں گزشتہ سال کے واقعات کا ذکر کیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ججز کا خط میڈیا کو لیک کرنا بھی سوالات کو جنم دیتا ہے، کسی بھی جج کو کوئی شکایت ہو تو اپنے چیف جسٹس کو آگاہ کرے، اگر متعلقہ عدالت کا چیف جسٹس کارروائی نہ کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جائے۔ بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کر تے ہوئے جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے گزشتہ آرڈر کی کاپی ابھی نہیں ملی تھی، مجھے اس کیس میں وزیر اعظم سے بھی بات کرنی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈر پر تین دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں ججز کو آرڈر کاپی دستخط کرنے کے لیے دے دی گئی۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو وقت چاہیے ہو گا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے کل تک وقت دے دیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا؟ اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آگئے۔ وکیل اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے بتایا کہ ہم 45 منٹ لیں گے، اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔ اس موقع پر اعتزاز احسن کی جانب سے خواجہ احمد حسین عدالت میں پیش ہوگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم پہلے وکلا تنظیموں کو سنیں گے۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار، بلوچستان ہائی کورٹ بار اور بلوچستان بار کونسل کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔ حامد خان نے دلائل کے لیے ایک گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ بار کے صدر اور ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار شہباز کھوسہ کے درمیان روسٹم پر اختلاف ہوگئے، سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کے لیے آدھا گھنٹہ مانگ لیا۔ شہباز کھوسہ نے بتایا کہ ہم نے ذاتی حیثیت میں الگ درخواست دائر کی ہے، ایگزیکٹو کمیٹی کی کل رات میٹنگ ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ پتا نہیں کیوں یہ اپنی تشہیر چاہتے ہیں، شہباز کھوسہ نے جواب دیا کہ میں کوئی تشہیر نہیں چاہتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دستخط شدہ آرڈر کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کریں۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل نے گزشتہ عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ پڑھنا شروع کردیا۔ قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ایک معزز جج نے اضافی نوٹ لکھا وہ بھی پڑھ لیں، جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ لکھا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں میری لکھائی اچھی نہیں ہے، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جی واقعی لکھائی اچھی نہیں ہے، چیف جسٹس پاکستان نے سابق صدر عابد زبیری سے مکالمہ کیا کہ ہم کسی پرائیویٹ شخص کو فریق نہیں بنائیں گے، وکلا بتائیں کتنا وقت درکار ہوگا دلائل کے لیے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا اضافی نوٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ بعد ازاں پاکستان بار کونسل کے وکیل ریاضت علی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 2018-2019 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کا مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا، لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائی کورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں، ہم نے 76 سال جھوٹ بولا اور سچ کو چھپایا ہے، ہمیں اب خوف ختم کر کے سچ بولنا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے صدر سپریم کورٹ بار سے مکالمہ کیا کہ ڈر کس بات کا ہے عوام کے سامنے سچ بولیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔ صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ بھی ماضی میں مداخلت پر خاموش رہی تو وہ بھی شریک جرم ہے ،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ صرف میں نہیں اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایک بمباری ہوتی ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت بتایا کہ ہم نے اپنی تمام پریس کانفرنس میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی مذمت کی اور اب ایک اتھارٹی بھی بن گئی ہے لیکن صحافی میرے پاس آ کر کہتے ہیں اظہارِ رائے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 2019 میں چیف جسٹس اور مجھ پر تنقید کی جاتی ہے لیکن ایک جج کو تنقید سے بے پرواہ ہو کر کام کرنا چاہیے، 3 نومبر 2007 کا اقدام سب سے بڑی توہین عدالت تھی لیکن اس پر کسی کو سزا نہیں ملی، آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ایک ڈسٹرکٹ جج مداخلت کے خلاف آواز اٹھائے گا؟ ،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر فیئر تنقید ہونی چاہیے، لیکن لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ تنقید اور جھوٹ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے، یہاں ایک کمشنر تھے اور انہوں نے جھوٹ بولا، تمام میڈیا نے چلایا، باہر ملکوں میں ہتک عزت پر جیبیں خالی ہو جاتی ہیں، صرف سچ بولنا شروع کریں، سزا جزا کو چھوڑیں۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ میں ایک مداخلت انتظامیہ، دوسری عدلیہ کے اندر سے اور تیسری سوشل میڈیا سے ہوتی ہے، سو موٹو اختیارات کا پچھلے ادوار میں غلط استعمال ہوتا رہا، وہ بھی ایک طرز کی مداخلت تھی، عدلیہ کی آزادی کی ذمہ داری صرف سپریم کورٹ پر نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے کام کرنا ہم ججز کا فرض ہے آپ کا فرض نہیں ، آپ نے حلف نہیں لیا میں نے لیا ہے، بہت سارے دبا ہو سکتے ہیں ہمیں تنخواہ ملتی اسی کام کی ہے، ہمیں اپنے ہیروز کو بھی سراہنا چاہیے جنہوں نے مارشل لا ڈکٹیٹرز کا سامنا کیا، وہ ہیروز ہین جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں لیا اور چلے گئے۔
اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب تک غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا نوٹس نہیں لیا جائے گا درست نہیں ہو گا، عدلیہ کی خرابی ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات میں کتنا وقت لگ جاتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی ایسا سسٹم بنانا چاہیے کہ اگر کچھ ہو جائے تو جیسے آپ وکلا سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اسی طرح ججز اکٹھے ہو جائیں، جب ججز اکٹھے کھڑے ہو جائیں تو کوئی کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ ،اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل نے کہا کہ حساس معلومات کی سیکیورٹی کے لیے ویلز میں ججز نے ایک انٹرانیٹ بنایا ہوا ہے، ججز کو اپنے انٹر کمیونیکشن کو محفوظ کرنے کے لیے انتظام کرنا چاہیے، یہ میری پہلی رائے ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اس پوائنٹ پر کوئی بات نہیں کر رہا کہ مداخلت ہوتی کیوں ہے، پہلے تسلسل سےمارشل لا لگا کرتا تھا وہ رک گئے پھر 82 بی آگئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں، اگر کسی سول جج کو کوئی جوتا مار دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ مک مکا کر لیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جج قتل کے مقدمات سنتے ہیں، موت کی سزائیں سناتے ہیں، ان پر بھی تو پریشر ہوتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے درست کہا ہے کہ زیادہ خرابی ہمارے اپنے اندر ہے۔
وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے دلائل دیے کہ پاکستان پہلا ملک نہیں جہاں ایسے اقدامات ہوئے، میں نے ایک فہرست لگائی ہے کہ کن کن ممالک میں ایسا ہوا، امریکا سمیت مختلف یورپی ممالک میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جو غلطی ہو اس کی نشاندہی کا ہمیشہ کہتا ہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چھ ججز کا خط ایک حقیقت ہے اس کو دیکھیں، ایسی صورتحال میں خوف کا تصور کیسے ہوگا؟ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پر ہر جج اپنے آپ کو مضبوط کرلے کہ کوئی رابطے کی کوشش نہ کرے، یا پھر کوئی ڈر ہوکہ کرے گا تو یہ ہوگا، اگر میں کمزور ہوں تو وہ کامیاب ہو جائے گا۔جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں مداخلت ہو بس ہمیں تگڑا ہونا چاہیے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل صاحب آپ دلائل دیں ورنہ ہم اپس میں لگے رہیں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ فرض کریں کہ مجھے دھمکی آتی ہے کہ اس کیس کا یہ فیصلہ کر دیں، میں شکایت دائر کروں وہ بہتر ہے یا وہ اختیار جو میں خود استعمال کر سکتا ہوں وہ؟ میں اپنے اختیارات کسی کمیشن کو کیوں دوں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے یا نہیں،گزشتہ سماعت پر پوچھا گیا کہ خفیہ ادارے کس قانون کے تحت چل رہے ہیں؟ مداخلت ہو ہی کیوں رہی ہے؟ سیاسی جماعتیں مداخلت ختم نہیں کرنا چاہتیں، 2018 کی مداخلت سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ ملا آج کسی اور کو مل رہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لیے کی جائے۔