فیصل واوڈا

جسٹس بابر ستار کو ایک سال بعد باتیں یاد آرہی ہیں، فیصل واوڈا

اسلام آ باد (عکس آن لائن) سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ جسٹس بابر ستار کو ایک سال بعد باتیں یاد آرہی ہیں،ہماری ماں کو جب سوشل میڈیا کے ٹرولز غلاظت بک رہے تھے تو اس پر بھی نوٹس لیا جانا چاہیے تھا ،سستی روٹی، غریب کے لیے کوئی اسٹے آرڈر ہوا؟ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے لیے کچھ ہوا؟ 40 سال پہلے بھٹو صاحب کو علامتی سزا دی گئی آپ ہمیں بتا رہے ہیں، یہ ہمیں پہلے سے ہی پتا تھا، نواز شریف کو پیسے نا لینے پر نا اہل کردیا گیا پر کوئی پوچھنے والا نہیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بابرستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔

انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے آرڈر دیا کہ ہر پاکستانی بات کسی سے بھی پوچھ سکتا ہے تو پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اب ابہام بڑھ رہا ہے، شک و شبہات سامنے آرہے ہیں کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سال پہے چیزیں ہوئیں، ایک سال بعد یاد آئیں، تو ایک سال ہپہلے کیوں نہیں بتایا، اب پھر مداخلت ہوئی پرسوں تو الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، اب آپ کو ثبوت دینے پڑیں گے کہ کس نے مداخلت کی، کیوں کی اور اس کے شواہد دیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ورنہ تو میں بھی فون اٹھا کے کہوں کہ جج نے کہہ دیا ہے کہ قتل کردو تو اس کا ٹرائل تھوڑی ہوجائے گا۔

فیصل واڈا نے کہا کہ ہمیں جواب نہیں مل رہا، ہمیں بتایا جائے کہ کیا ریکارڈ کے اندر یہ سب لکھا گیا ہے اور اگر ریکارڈ کا حصہ نہیں تو اس کے نتائج ہوں گے، اطہر من اللہ صاحب تو تاریخی فیصلے کرتے ہیں، میرا گمان ہے کہ وہ اصول پسند آدمی ہیں، وہ کسی دبا میں نہیں آتے، کسی سے رات کے اندھیرے میں نہیں ملتے تو وہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے تحریری طور پر چیز نا لی ہو، وہ ریکارڈ ہمیں ملنا چاہیے، ہم اسے کیوں نا منگیں؟ سابق وزیر کے مطابق سوشل میڈیا کے اوپر آپ نے نوٹس لیا، لیکن ہماری ماں کو جب سوشل میڈیا کے ٹرولز غلاظت بک رہے تھے تو اس پر بھی نوٹس لیا جانا چاہیے تھا لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے بہت اچھی بات کی،

خود احتسابی کی بات کی تو اس پر ہمیں خوش ہونا چاہیے لیکن ایک تنا ہے جس کے تحت بار بار انٹیلیجنس اداروں کا نام لیا جا رہا ہے تو شواہد دیں، اور اگر جو آپ نے بتایا وہ زبانی ہے تحریری نہیں ہے تو پھر تو مسئلہ ہے، اس معاملے کو واضح کریں تاکہ یہ منطقی انجام تک پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ سستی روٹی، غریب کے لیے کوئی اسٹے آرڈر ہوا؟ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے لیے کچھ ہوا؟ 40 سال پہلے بھٹو صاحب کو علامتی سزا دی گئی آپ ہمیں بتا رہے ہیں، یہ ہمیں پہلے سے ہی پتا تھا، نواز شریف کو پیسے نا لینے پر نا اہل کردیا گیا پر کوئی پوچھنے والا نہیں، کب تک ہم یوں چلیں گے، اگر قانون ساز کوئی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج دوہری شہریت کے ساتھ کیسے بیٹھے ہیں؟