واشنگٹن (عکس آن لائن) چین کی نیٹ ورک سیکیورٹی ایجنسیوں نے تیسری بار ایک خصوصی رپورٹ جاری کی، جس میں اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا کہ امریکی سرکاری ایجنسیوں اور “فائیو آئیز” ممالک نے چین اور جرمنی جیسے دیگر ممالک کے تناظر میں عالمی انٹرنیٹ صارفین کے خلاف سائبر جاسوسی اور خفیہ چوری کی سرگرمیاں انجام دیں، امریکی سرکاری ایجنسیوں نے مختلف ذرائع سے دوسرے ممالک کو مورد الزام ٹھہرایا، “سپلائی چین” حملوں کو اپنایا اور انٹرنیٹ مصنوعات میں بیک ڈور استعمال کیے ۔ رپورٹ میں بیان کردہ حقائق نے پوری طرح سے انکشاف کیا ہے کہ نام نہاد “وولٹ ٹائیفون” ایک سیاسی تماشہ ہے جس کی ہدایت اور منصوبہ بندی امریکہ کی وفاقی حکومت نے کی ہے۔
رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طویل عرصے سے امریکہ نے مخالف ممالک کے آس پاس کے علاقوں میں سائبر وار فیئر فورسز تعینات کر رکھی ہیں تاکہ ان ممالک میں سائبر اہداف کی جاسوسی اور سائبر دراندازی کی جا سکے۔ اس حکمت عملی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے، امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خاص طور پر “ماربل” کے نام سے ایک اسٹیلتھ “ٹول کٹ” تیار کی ہے تاکہ اپنے بدنیتی پر مبنی سائبر حملوں کو چھپایا جاسکے اور دوسرے ممالک کو بد نام کیا جاسکے۔
چین کی سائبر سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق امریکی حکومتی ایجنسیوں کی جانب سے چینی پس منظر کے حامل نام نہاد ‘وولٹ ٹائیفون’ سائبر حملے کی تنظیم کو من گھڑت بنانے کا مقصد “فارن انٹیلی جنس سرویلنس ایکٹ” کی دفعہ 702 کے تحت دیے گئے ‘غیر لائسنس یافتہ’ نگرانی کے حقوق کو اپنے پاس رکھنا ہے تاکہ اس کے ‘اندھا دھند’ نگرانی کے پروگرام کو برقرار رکھا جا سکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انٹیلی جنس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی مخصوص اہداف کے خلاف خفیہ سائبر دراندازی کی کارروائیاں کرتی ہے اور اس کے متاثرین بنیادی طور پر ایشیا، مشرقی یورپ، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی امریکا میں مرکوز ہیں ۔تکنیکی ٹیم کی جانب سے حاصل کیے گئے شواہد کے مطابق 50 ہزار سے زائد جاسوسی پروگرام مخصوص اہداف پر لگائے گئے ہیں۔ چین کے تقریباً تمام اہم شہر اس کی خفیہ سائبر دراندازی کی حدود میں ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی ہدف کو امریکہ کی وفاقی حکومت اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں “ترجیحی واچ لسٹ” میں ڈال سکتی ہیں جن میں امریکہ کے کچھ “اتحادی ممالک “جیسے فرانس، جرمنی، جاپان اور یہاں تک کہ عام امریکی شہری بھی شامل ہیں