چین

لائسنس پلیٹس سے ضوابط تک: چین میں خودکار ڈرائیونگ کا”ایل تھری لمحہ”

بیجنگ (نیوز ڈیسک) حال ہی میں، چین کے شہر چھونگ چھنگ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو آٹوموٹو انڈسٹری کے لیے بہت اہم ہے: چائنا چھانگ آن آٹوموبائل کمپنی لمیٹڈ کو ایک خاص نمبر پلیٹ جاری کی گئی جس پر ” چھونگ چھنگ “AD0001Z درج ہے۔

یہ پلیٹ خاص کیوں ہے؟ کیونکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ چین نے باضابطہ طور پر ” لیول تھری” خودکار ڈرائیونگ سسٹم سے لیس گاڑیوں کو سڑکوں پر چلنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس اقدام کے بعد چین دنیا کا دوسرا ملک بن گیا ہے جہاں ایل تھری سطح کی خودکار گاڑیوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوئی ہے، اس سے قبل یہ اعزاز صرف جرمنی کو حاصل تھا۔ یہ محض ایک گاڑی کو نمبر پلیٹ جاری کرنے کا معاملہ نہیں،بلکہ یہ ایک چابی کی طرح ہے جو مستقبل کے سفر کے لیے ایک اہم دروازہ کھولتی ہے۔

” ایل تھری” کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں، ایل تھری سے نچلی تمام سطحوں کو معاون ڈرائیونگ نظام یا اسسٹڈ ڈرائیونگ سسٹم کہا جاتا ہے، جبکہ ایل تھری وہ پہلا درجہ ہے جسے حقیقی معنوں میں خودکار ڈرائیونگ کہا جا سکتا ہے۔ایل تھری خودکار ڈرائیونگ سسٹم، جسے “مشروط خودکار ڈرائیونگ” بھی کہا جاتا ہے، چینی قومی معیار کے مطابق چھ سطحوں میں تقسیم ہے، اور لیول تھری معاون ڈرائیونگ سے خودکار ڈرائیونگ تک ایک اہم سنگ میل ہے۔ ایل تھری اور ایل ٹو کے درمیان سب سے نمایاں فرق یہ ہے کہ ایل تھری گاڑی میں مخصوص حالات کے تحت ڈرائیور کو آنکھیں اور ہاتھ ہٹانے کی اجازت ہوتی ہے، جبکہ ایل ٹو میں ایسا ممکن نہیں۔

مخصوص حالات، جیسے متعین سڑکیں اور موزوں موسم، میں ایل تھری گاڑیاں ڈرائیونگ کے کام جیسے اسٹیئرنگ، ایکسیلیریشن اور سست رفتاری، لین چینج، اور ٹریفک لائٹ کی شناخت خود کر سکتی ہیں۔ اس دوران ڈرائیور کو مسلسل سڑک کی نگرانی کی ضرورت نہیں رہتی، اور وہ مختصر وقت کے لیے موبائل فون دیکھ سکتا ہے یا تھوڑی دیر کے لیے آرام کر سکتا ہے ۔ یہی ہینڈ اوور عمل ایل تھری کو ایل ٹو سطح کے معاون ڈرائیونگ نظام سے بنیادی طور پر ممتاز کرتا ہے۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایل ٹو میں نظام محض ایک معاون ہوتا ہے اور کسی بھی حادثے کی ذمہ داری مکمل طور پر ڈرائیور پر عائد رہتی ہے، جبکہ ایل تھری میں نظام کے فعال ہونے کے دوران پہلی مرتبہ ذمہ داری ڈرائیور سے گاڑی ساز ادارے کی جانب منتقل ہوتی ہے۔یہ چھوٹی سی تبدیلی حقیقی خودکار ڈرائیونگ ٹیکنالوجی کے نفاذ کے دروازے کھولتی ہے اور صارفین کو اس نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کے لیے زیادہ اعتماد دیتی ہے۔

چین کی جانب سے اس مرحلے پر یہ قدم اٹھانا ایک واضح اسٹریٹجک سوچ کا عکاس ہے۔حالیہ برسوں میں، چین نے اسمارٹ کاروں کے لیے راہ ہموار کی ہے، قومی سطح پر بلیو پرنٹ ڈیزائن سے لے کر شن زن، شنگھائی اور دیگر مقامات پر پائلٹ پروجیکٹس تک۔ چھونگ چھنگ کی حالیہ پیش رفت اس پالیسی راستے پر ایک کلیدی پل ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ نہ تو پسماندہ ضوابط ٹیکنالوجی کی ترقی میں رکاوٹ بنیں اور نہ ہی عجلت پسندی کے باعث سلامتی پر سمجھوتا کیا جائے، بلکہ تکنیکی اور ادارہ جاتی جدت کو ساتھ ساتھ آگے بڑھایا جائے۔

ایل تھری کے حفاظتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے لیزر ریڈار، ہائی پرفارمنس چپس اور فائن میپ ٹیکنالوجی اب ایک تصوراتی ڈسپلے نہیں ہوں گی، بلکہ جلد ہی بڑے پیمانے پر تیار کی جانے والی گاڑیوں کا معیاری سامان بن جائیں گی۔ایل تھری کی حفاظتی ضروریات کو واقعی پورا کرنے کے لیے، آٹو میکرز کا کردار بھی خاموشی سے بدل رہا ہے، جو اب روایتی صنعت کاروں کے بجائے ٹیکنالوجی کمپنیوں سے مشابہ ہوتے جا رہے ہیں، جہاں سافٹ ویئر اپ ڈیٹس اور ڈیٹا اینالیٹکس قدر پیدا کرنے کے بنیادی ذرائع ہوں گے۔

مستقبل کی گاڑی شاید اب صرف ایک نقل و حمل کا ذریعہ نہ رہے، بلکہ دفتر، تفریح اور ڈیجیٹل سہولیات سے آراستہ ایک متحرک ذہین جگہ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ تاہم اس تبدیلی کے لیے معاشرتی موافقت بھی ناگزیر ہے۔ لوگوں کو مخصوص حالات میں ڈرائیونگ کا اختیار مشین کے سپرد کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی، جبکہ سڑکوں اور ٹریفک کے بنیادی ڈھانچے کو بھی ان ذہین گاڑیوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، تاکہ ان اسمارٹ کاروں سے بہتر بات چیت کی جا سکے۔

اسی دوران چیلنجز بھی موجود ہیں : ملک بھر میں ایک یکساں ذمہ داری کے تعین اور انشورنس نظام کو کیسے قائم کیا جائے؟ خودکار ڈرائیونگ کے دوران پیدا ہونے والے وسیع ڈیٹا کے غلط استعمال کو کیسے روکا جائے؟ ایل تھری سے مکمل بغیر ڈرائیور گاڑیوں تک ابھی بھی تکنیکی راستہ طویل ہے ،

مگر چھونگ چھنگ میں جاری کی گئی یہ نمبر پلیٹ ایک واضح پیغام دیتی ہے: انسان اور مشین کی مشترکہ ڈرائیونگ کا دور تیزی سے قریب آ رہا ہے۔چین اس تبدیلی میں حصہ دار ہے جو دنیا بھر میں ہمارے سفر کے انداز کو بدل رہی ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں جب چینی ڈرائیور سفر کے دوران کتاب پڑھنے یا اخبار دیکھنے کے عادی ہو جائیں، تو انہیں یاد آئے کہ اس تبدیلی کا آغاز خاموشی سے ایک ایسی نمبر پلیٹ سے ہوا تھا، جس پر” چھونگ چھنگ AD0001Z “درج تھا۔