امریکہ

معاشی اور تجارتی دباؤ میں مزید اضافہ، امریکہ کی چینی سیمی کنڈکٹر ٹیکس میں اضافی ٹیرف کے پسِ پردہ تاریک ذہنیت

بیجنگ(نیوز ڈیسک) رائٹرز کے مطابق، امریکی تجارتی نمائندہ دفتر نے اعلان کیا ہے کہ جون 2027 سے چین سے درآمد ہونے والی سیمی کنڈکٹر مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کیے جائیں گے، جبکہ مخصوص شرحِ ٹیکس کا اعلان کم از کم ایک ماہ قبل کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے چینی سیمی کنڈکٹر صنعت سے متعلق ایک سالہ تحقیقات مکمل کر لی ہے۔ یہ تحقیقات بائیڈن انتظامیہ کے دور میں شروع ہوئیں اور اس کی قیادت امریکی تجارتی نمائندہ دفتر نے کی تھی۔ امریکی بیان میں کہا گیا ہے کہ “چین کی جانب سے سیمی کنڈکٹر شعبے میں بالادستی حاصل کرنے کی کوشش غیرمنصفانہ ہے اور امریکی کاروبار پر بوجھ یا پابندی کا سبب بن رہی ہے، لہذا اس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔”

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان اس سے قبل واضح کر چکے ہیں کہ چین نے امریکہ کی جانب سے چینی سیمی کنڈکٹر صنعت کو نشانہ بنانے والی بدنیتی پر مبنی پابندیوں اور دباؤ کے بارے میں بارہا سنجیدہ موقف کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ نے سیکیورٹی کے بہانے معاشی، تجارتی اور تکنیکی مسائل کو سیاسی رنگ دیا ہے، چپس کی برآمدات پر مسلسل پابندیاں عائد کی ہیں، اور دیگر ممالک پر دباؤ ڈال کر چین کی سیمی کنڈکٹر صنعت کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ طرزِ عمل عالمی سیمی کنڈکٹر صنعت کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور بالآخر خود امریکہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

حالیہ برسوں میں، امریکہ نے چینی صنعت کی ترقی کو روکنے کے لیے قومی سلامتی کے تصور کو مسلسل بےجا وسعت دی ہے اور برآمدی کنٹرول کا غلط استعمال کیا ہے۔ 2022 کے بعد سے اس نے کئی بار چپس سے متعلق کنٹرول اقدامات متعارف کرائے ہیں، 2024 میں مزید پابندیاں بڑھائی ہیں، مزید اشیاء کو کنٹرول لسٹ میں شامل کیا ہے، اور اب “ایک سالہ تحقیقات” کے نام سے دوبارہ ٹیرف میں اضافے کی پلاننگ کررہا ہے۔ امریکی وزیر تجارت جینا رائمنڈو کھلے الفاظ میں کہہ چکی ہیں کہ برآمدی کنٹرول کا مقصد “چین کی رفتار کم کرنا” اور امریکی تکنیکی برتری کو برقرار رکھنا ہے۔ اس طرح کے بیانات نے عالمی صنعتی نظام کو تباہ کرنے کی امریکی ناانصافی اور جبر کو واضح کردیا ہے۔

سیمی کنڈکٹر صنعت میں عالمی سطح پر تقسیمِ کار مارکیٹ قوانین اور تکنیکی ارتقا کا فطری نتیجہ ہے، جس نے ایک باہم مربوط صنعتی نظام تشکیل دیا ہے۔چین نے مینوفیکچرنگ کی برتری کے ساتھ پختہ پروسیس چپس کے میدان میں کامیابی حاصل کی ہے، جس نے عالمی سطح پر مستحکم سپلائی فراہم کی ہے۔ یہ عالمی تقسیمِ کار میں حصہ لینے کا جائز حق ہے، لیکن امریکہ نے اسے “غیرمنصفانہ بالادستی کی کوشش” قرار دے کر بدنام کیا ہے۔ اس کے برعکس، امریکہ نے “چپس اینڈ سائنس ایکٹ” کے ذریعے مقامی کمپنیوں کو بھاری سبسڈی دی ہے، اتحادیوں کو چین پر پابندیوں کے لیے مجبور کیا ہے، یہی مکمل طور پر صنعتی ماحول کو تباہ کرنے والا عمل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تکنیکی ناکہ بندی میں دراڑیں پڑ چکی ہیں ، چین پر برآمدی کنٹرول کی وجہ سے اینویڈیا جیسی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جبکہ سبسڈی حاصل کرنے والی انٹیل کو بڑے پیمانے پر ملازمتوں میں کمی اور منافع کی تقسیم روکنے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ صنعتی اجارہ داری معاشی قوانین کے خلاف ہے اور بالآخر خود اپنے لیے نقصان دہ بنتی ہے۔

“معاشی جبر” سے لے کر “اوور پروڈکشن” تک، امریکہ اور مغرب نے ہمیشہ دوسروں کو دبانے کے لیے دوہرے معیار کے حامل بیانیے تشکیل دیے ہیں۔ امریکی گاڑیاں،کوکا کولا وغیرہ پوری دنیا میں فروخت ہوئیں، ٹیسلا، ایپل کی مصنوعات عالمی مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ فراہم کرتی ہیں، لیکن کسی نے اسے اوور پروڈکشن نہیں کہا، جبکہ چین کی نیو انرجی اور سیمی کنڈکٹر صنعت کی صلاحیتیں مارکیٹ کی مانگ اور صنعتی ترقی کا فطری نتیجہ ہیں، لیکن انہیں بدنام کرکے دبایا جارہا ہے۔اس مرتبہ چین کی سیمی کنڈکٹر مصنوعات پر اضافی محصولات کی امریکی دھمکی دراصل کھلا” معاشی جبر” ہے۔ واضح ہے کہ “اوور پروڈکشن”، “معاشی جبر” جیسے بیانیے درحقیقت امریکہ اور مغربی ممالک کی اس تاریک ذہنیت کا عکاس ہیں جو دیگر ممالک کی تیز رفتار ترقی کو روکنا چاہتی ہے۔

تاریخ کا دھارا روکا نہیں جا سکتا اور اجارہ دارانہ رویے بالآخر ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔امریکی پابندیاں اور دباؤ چینی سیمی کنڈکٹر صنعت کی ترقی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں، بلکہ اس نے چین کو خود انحصاری اور جدت طرازی کی طرف متحرک کیا ہے۔ 2025 کے پہلے نو مہینوں میں چین کے انٹیگریٹڈ سرکٹس کی پیداوار میں 8.6 فیصد اضافہ ہوا ہے، برآمدات میں 20.3 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور جدید پیکجنگ جیسے شعبوں میں کئی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اے ایس ایم ایل کے چیف ایگزیکٹو نے بھی خبردار کیا ہے کہ برآمدی پابندیاں امریکی بالادستی کو کمزور کریں گی اور چین کی خود انحصاری کو فروغ دیں گی ۔
عالمی صنعتی و سپلائی چین کا استحکام برابری اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون کا تقاضا کرتا ہے، نہ کہ بالادستی اور دباؤ پر۔ اگر امریکہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا تو اسے چین کی جوابی کارروائی اور عالمی منڈی میں اپنی ساکھ اور اعتماد کے فقدان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بالآخر، اجارہ دارانہ سوچ ترک کر کے مارکیٹ قوانین کی طرف واپسی اور تعاون کے ذریعے صنعتی ترقی ہی تمام انسانیت کے مشترکہ مفاد میں ہے۔