ریاض (عکس آن لائن)سعودی عرب میں افغانستان کے سفیر سید جلال کریم نے افغان حکومت اور اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات پر اصرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان قطر کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات سے افغان حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ جب تک افغان حکومت اس بات چیت کا فریق نہیں بنتی مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان صلح کا حتمی معاہدہ مکہ معظمہ میں ہونا چاہیے۔عرب ٹی وی کو انٹرویومیں جلال کریم نے کہا کہ امریکا طے کرتا ہے کہ طالبان سے کب ملاقات کہاں ملاقات کی جائے گی، لیکن افغان حکومت کا موقف اس سلسلے میں واضح ہے ہماری خواہش ہے کہ حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات ہوں۔
ریاض میں افغان سفیر نے کہا کہ افغان حکومت مصالحتی عمل میں سعودی عرب کا کلیدی کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ افغانستان کے صدر صدر اشرف غنی کی ہدایت پر بات چیت کو حتمی شکل دینے اور مکہ میں حکومت اور طالبان کے مابین مفاہمت کے آخری معاہدے پر دستخط کرنا چاہئیں۔ کریم نے ایران کے ساتھ طالبان کے اتحاد کی اہمیت کو رد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان علاقائی تنازعات کا میدان نہیں بننا چاہتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک بار پھر افغانستان کو بڑی خانہ جنگی میں گھسیٹنے سے نہیں ڈرتے ہیں اور نہ ہی افغانستان کو دوسرے ممالک کے مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانے کی اجازت دیں گے۔قطری دارالحکومت دوحا میں طالبان کے ساتھ امریکا کے مذاکرات کے 9 دور اور ان مذاکرات میں افغان حکومت اور عالمی برادری کے موقف کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں افغان سفیر نے کہاکہ عام تاثر یہ ہے کہ عالمی برادری افغان حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات کی حمایت کرے گی۔
حکومت نے ابتدائی طور پر طالبان اور امریکا کے درمیان ملاقاتوں کا خیر مقدم کیا تھا۔ اس بنیاد پر کہ دوسرا مرحلہ حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات کا ھو گا۔ آج جب ہم مفاہمت کے عمل کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے 18 سال کی خانہ جنگی ہے۔ ہمیں اس طویل خانہ جنگی کو ختم کرنا ہے۔ افغانستان کو امن کی اشد ضرورت ہے عالمی برادری اور ہمسایہ ممالک کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں دیر پا امن کے قیام کے لیے مذاکراتی عمل کی حمایت اور معاونت کریں۔طالبان کے روس اور ایران کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور امن بات چیت کے مستقبل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ افغان حکومت تمام ہمسایہ ممالک سے کہتی ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور امن لانے میں مدد کریں۔ یہ ملک کا اسٹریٹجک انتخاب ہے۔ افغانستان میں دوسرے ممالک کے مفادات الگ الگ ہیں۔ ہر ملک کے مفادات الگ الگ ہوتے ہیں، لیکن ہم افغانستان میں تمام ممالک کے ساتھ اچھے دوست تعلقات رکھتے ہیں اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ ہم کسی مخصوص جماعت کے خلاف کسی گروپ یا تنظیم کی حمایت نہیں کرتے ۔کیمپ ڈیوڈ میں امریکی حکام کے ساتھ مشترکہ اجلاس سے ایک دن قبل حالیہ طالبان بم دھماکے اور اس کے اثرات کے بارے میں ایک سوال پر افغانستان کے سفیر کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں بم دھماکے، جنگیں اور فوجی منصوبے افغان مسئلے اور مفاہمت کے عمل کا کوئی مناسب حل نہیں۔
حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات ہی افغان تنازع کے خاتمے کا واحد راستہ ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہ ممالک اور طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات اور رابطے کی لائنز جنگ بندی میں استعمال کریں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت جنگ بندی کی ضرورت اور حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ مگر جنگ بندی کے لیے کسی قسم کی پیشگی شرائط قبول نہیں۔جلال کریم کا کہنا تھا کہ طالبان اور امریکا کے مابین دوحا میں ہونے والے مذاکرات کے ساتھ افغان حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ جب تک کہ افغان حکومت مذاکرات کی فریق نہیں بن جاتی۔ امریکا فیصلہ کرتا ہے کہ طالبان سے کب ملاقات کی جائے اور کہاں ملاقات کی جائے گی لیکن افغان حکومت کا اس سلسلے میں موقف واضح ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات ریاض اور ابو ظبی جیسے شہروں میں ہوں۔ صدر اشرف غنی طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے لیے مکہ معظمہ کو بہتر سمجھتے ہیں۔