ملیحہ سید

میں وہ صدا ہوں جو سامع تلاش کرتی ہے

تحریر:ملیحہ سید

اللہ بخشے نانی اماں کو جب اولاد یا خاندان میں سے کسی کے امید سے ہونے کی اطلاع آتی تو ساتھ ہی دعاؤں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ دعائیں بھی سادہ سی کہ اللہ پاک مکمل اولاد عطاء فرمانا۔بیٹا ہو یا بیٹی ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل اور صحت مند ہوں اور ساتھ ہی ماں باپ بننے والے جوڑے پر سورت مریم کی تلاوت لازمی ہو جاتی۔ ساتھ ہی وہ ماؤں کو سستی کا مظاہرہ نہ کرنے کی تلقین کرتیں کہ ماں بننے والی عورت کا ایکٹو ہونا ضروری ہے وہ گھر کے کام کاج میں مصروف رہے ، جاب کرتی ہے تب بھی وہ متحرک رہے جس کا بچے پر مثبت اثر پڑے گا۔

پچھلے وقتوں میں پیدائشی طور پر ذہنی یا جسمانی معذوری لیکر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد بہت کم تھی۔ میں نے کم از کم اپنے خاندان میں یا محلے میں ارد گرد کوئی ایسا بچہ نہیں دیکھا تھا۔ پوری گلی میں صرف ایک ہی گھر میں ایک بچی جو مجھ سے کوئی چھ سات سال بڑی ہو گی وہ ذہنی طور پر اپنی عمر سے ہی پیچھے تھی مگر گھر کے کاموں میں بہت ایکٹو۔

مگر اب کچھ عرصے سے ( اس میں مدت کا تعین نہیں کیا جا سکتا) وطن عزیز میں ذہنی اور جسمانی معذوری کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں اصافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ (پہلی بار میرا واسطہ اپنی پہلی ملازمت جو کہ ایک Mean Streaming School میں تھی سے پڑا اور اسپیشل ایجوکیشن کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی۔)

تاہم اس صورت حال پر کوئی ڈاکٹر ہی زیادہ بہتر انداز میں روشنی ڈال سکتا ہے۔ تاہم میرے نزدیک موجودہ دور میں ہمارے رشتے ذہنی دباؤ اور تناؤ کا شکار ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہیں جس کا اثر بچے کی صحت پر پڑتا ہے پھر دوران پریگنینسی دوائیوں کا اور غیر مناسب خوراک کا استعمال ماں کے رحم میں ہی بچے کی صحت کو متاثر کرتا ہے جس کا نتیجہ اس کی پیدائش پر سامنے آتا ہے۔ یعنی ماں کی جسمانی، ذہنی اور قلبی حالت بچے کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔مگر شعور کی کمی یا پھر شرم کی وجہ سے اس حوالے سے کوئی شاید بات کرنا نہیں چاہتا۔ اس سلسلے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وطن عزیز میں معذور بچوں کی پیدائش کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پایا جا سکے۔

ارسلان اور دانش کا کیس کرتے ہوئے مجھ سے کچھ سوال کیے گئے ۔۔جن کے جواب میرے پاس نہیں تھے۔اہم ترین سوال یہ تھا کہ کیا بچوں کے پاس معذوری کا سرٹیفیکیٹ ہے؟ میرا اس صورت حال سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا اس لیے معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں مگر بچوں کے والدین بھی لاعلم تھے۔تاہم اس کے بعد ملنے والی معلومات کے بعد کچھ خیالات نے سر اٹھایا۔جو یہاں شئیر کر رہی ہوں کہ اگر ایسا ہو جائے تو غربت کا بھرم بھی رہ جائے اور بروقت علاج سے بیماری کو بڑھنے سے بھی روکا جا سکے اور یہ بچے گداگروں کے ہھتے چڑھنے سے محفوظ رہیں اور انہیں گداگری سمیت دیگر جرائم میں استعمال نہ کیا جا سکے۔

سات سالہ دانش پیدائشی طور پر ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار ہے، اس کی والدہ کے مطابق کیس سر گنگا رام ہسپتال کے گائنی وارڈ میں ہوا۔ میرا مشورہ ہے کہ جب مستحق اور غریب والدین کے ہاں ایسے بچے پیدا ہوں جو جسمانی طور پر معذور ہوں یا پھر ذہنی اور جسمانی دونوں ہی طرح کی معذوری کا شکار ہوں تو متعلقہ گائنی ڈاکٹر کو اس بچے کو اسی وقت معذوری سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہوئے معذور بچوں کی سرکاری لسٹ میں اس کا نام شامل کروائے یا والدین کو بتایا جائے کہ اپنے بچے کو فلاں مرکز میں رجسٹرڈ کروائیں۔اس معذوری سرٹیفیکیٹ کے ساتھ جو ہسپتال کی جانب سے ایشو کیا جا رہا ہے۔

یہ میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ پاکستان کے آئین کے مطابق
“مملکت ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بالحاظ جنس،ذات ،مذہب یا نسل،بنیادی ضروریات زندگی مثلا خوراک،لباس،رہائش ،تعلیم اور طبی امداد فراہم کرے گی۔”
( دستور پاکستان 1973۔۔۔ حصہ دوم : بینادی حقوق اور حکمت عملی کے اصول ، آرٹیکل 38 شق (د)…)

اس لیے یہ فرض سب سے پہلے اس گائنی کی جانب سے ادا ہونا چاہیے جو کیس کر رہی ہے مگر جہاں پر دائی سسٹم ہے اور گھروں کے اندر کیس ہوتے ہیں اس صورتحال میں والدین کو یہ قدم اٹھانا چاہیے۔ اگر آپ مستحق ہیں اور اپنے بچوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو پھر ریاست سے مدد طلب کریں یہ آپ کا حق ہے کیونکہ بیت المال اور سوشل ویلفیئر کے ادارے اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔

ارسلان جیسے بچے جو کہ پیدائش کے کچھ برسوں کے بعد معذوری کا شکار ہوں اور ان کے والدین انہیں لیکر چلڈرن یا دیگر ہسپتالوں میں جائیں تب بھی ڈاکٹر انہیں معذوری سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہوئے ان کا نام معذور افراد کی لسٹ میں شامل کروائیں۔ ابتدائی علاج کے ساتھ ساتھ دائمی علاج کی فراہمی میں راہنمائی اور معاونت بھی ہسپتال اور ڈاکٹر کی زمہ داری ہونی چاہیے۔

بیت المال ہو یا سوشل ویلفیئر کے مراکز۔۔۔ ان کے پاس ایسے بچوں کی فہرست ہسپتالوں اور گائنی کلینکس سے آنی چاہیں تاکہ اگر غریب والدین ان مراکز میں جائیں تو کم از کم جن کے پاس معذوری کا سرٹیفیکیٹ ہو اور نام لسٹ میں ہو ۔ تاہم ہونا تو یہ چاہیے کہ ہسپتالوں سے معلومات آنے پر ادارے کے افراد خود ان بچوں تک رسائی حاصل کریں تاکہ انہیں مستقل بنیادوں پر طبی امداد کی فراہمی ممکن ہو اور یہ کیسز لمبی چوڑی سرکاری کاروائی کا شکار نہ ہوں کیونکہ کاروائی کی طوالت کے باعث مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہ تجویز ہے اگر ایسا ہو جائے تو بہت سوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔
یہ چند منٹوں کا سرکاری کام ہے۔جو اگر ہو جائے تو بہت اچھا ہو ۔ ایک معاشرے میں ہر طرح کی سوچ کے حامل افراد رہتے ہیں۔ ہر طرح کی ضروریات سر اٹھاتی ہیں۔ذہنی یا جسمانی معذور بچوں کی اکثریت زیادہ تر محروم یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ جہاں پیٹ بھرنے کے لیے خوراک نہیں وہاں ان بچوں کا علاج کون کروائے گا اور اگر چھ سات بچوں میں ایک آدھ ایسا بچہ پیدا ہو جائے تو والدین رو دھو کر چپ کر جاتے ہیں یا مزار پر چھوڑ آتے ہیں۔ جہاں وہ جس درندگی کا شکار ہوتے ہیں اس کو لکھنے کے طاقت میرا قلم نہیں رکھتا۔

بنیادی طور پر شاید ہم میں سے کوئی بھی کسی کا دکھ درد مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتا مگر ہم اس کی شدت میں کمی لانے کا باعث ضرور بن سکتے ہیں اور بننا بھی چاہیے کیونکہ

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

اپنا تبصرہ بھیجیں