محمد عامر خاکوانی

عمران خان کی ٹیم پر تنقید کیوں؟

محمد عامر خاکوانی

وزیراعظم عمران خان کوا پنے نقادوں سے یہ شکوہ ہے کہ وہ انہیں بے رحم تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اپوزیشن کے زمانے میں بھی خان صاحب یہ کہا کرتے تھے کہ سیاسی مافیاز ان کی کردار کُشی کررہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی شکایت اور شکوے پہلے سے بڑھ رہے ہیں۔ ڈیڑھ سالہ حکومتی دور میں انہیں مختلف حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان اپنے مخالفین کو مافیاز کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہر دو چار دنوں کے بعد وہ اپنے کسی تندوتیز بیان میں لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ انہیں صرف اس لئے ٹارگٹ کیا جاتا ہے کہ وہ نظام بدلنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن کے دنوں میں عمران خان جب ایسی کوئی بات کہتے تھے تواس بات میںقدرے وزن محسوس ہوتا تھا۔ صحافتی حلقے چونکہ اچھی طرح واقف ہیں کہ ان کی سب سے بڑی مخالف سیاسی جماعت ن لیگ ماضی میں کس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کرتی رہی اور مسلم لیگی میڈیا سیل اپنے مخالفوں کے خلاف منظم مہم چلانے میں کس قدر ماہر ہیں، اس لئے خان صاحب کا بیانیہ تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ آج عمران خان جب یہ بات دہراتے ہیں تو کچھ زیادہ پرکشش نہیں لگتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان درست بات نہیں کر رہے۔ وہ اپنی جس ٹیم کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس میں دم نہیں۔ اسی لئے وزیراعظم کا دفاع بھی مذاق بن جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پچھلے تیس برسوں میں عمران خان سے زیادہ کمزور اور نااہل ٹیم کسی وزیراعظم کی نہیں رہی۔ اقتدار میں غلط بخشیوں کی روایت ہمیشہ رہی ہے ۔اس کے باوجود کوئی بھی وزیراعظم ایسا نہیں آیا جس نے اس قدر بڑی تعداد میں بیکار، پرلے درجے کے نااہل، عاقبت نااندیش اورآئے روز اپنی حکومت کے لئے مسائل پیدا کرنے والے لوگوں کو وزارت دی ہو۔ یہ ”سعادت“ جناب عمران خان کے حصے میں آئی ہے۔ خان صاحب کی کابینہ میں جو” جگمگاتے ہیرے “تشریف فرما ہیں، ان پر اگر بات کی جائے تو کالموں کی ایک طویل سیریز لکھنا پڑے گی۔ سردست ہم ان کی بہت اہم سلیکشن وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو لیتے ہیں۔ جناب عثمان بزدار کو اس سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا، ممکن ہے ڈی جی خان کے مقامی صحافی بھی زیادہ واقف نہ ہوں۔خان صاحب کا یہ فیصلہ پہلے دن سے سخت عوامی، سیاسی، صحافتی تنقید کا نشانہ بنا ہے۔ہر کوئی اسے غلط فیصلہ کہتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ عمران خان پہلے دن سے عثمان بزدار کی شخصیت اور صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ہم کسی بحث میں پڑے بغیر جناب بزدار کے ٹیلنٹ اور خصوصیات کو معروف سیاسی جمہوری اصولوں کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

نظریہ : سیاسی جماعتوں میں نظریہ اور فکر سب سے اہم پہلو ہے۔ خاص کر وہ جماعت جو نظام بدلنا چاہتی ہو، جس کا بنیادی منشور ہی تبدیلی لانا ہو۔ ایسی جماعت جب اقتدار میں آئے گی تو ایسے اہم منصب پر یقیناً نظریاتی سوچ رکھنے والے کو موقع دے گی۔عثمان بزدار ڈیڑھ برسوں سے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔ان میں کسی بھی نوعیت کی نظریاتی سوچ، فکر یا خیال کی جھلک نہیں دیکھی گئی۔ان کا یہ خانہ خالی ہے۔ پارٹی سے غیر متزلزل وفاداری: سیاسی جماعتوں میں یہ بھی اہم وصف سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات کسی اوسط درجے کے شخص کو بڑی ذمہ داری صرف اس لئے مل جاتی ہے کہ پارٹی قائد کی نظر میں اس کی پارٹی سے وابستگی غیر معمولی رہی۔پہلے دن سے یا ابتدائی زمانے سے وہ پارٹی کا حصہ رہا، مختلف ادوار میں نرم گرم موسم دیکھے، مشکلات کا مقابلہ کیا مگر اپنے لیڈر اور جماعت سے بے وفائی نہیں کی۔ کیا یہ خوبی جناب عثمان بزدار میں پائی جاتی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ان کا تحریک انصاف سے دور دور کا تعلق نہیں۔تحریک انصاف بائیس تیئس سال پہلے قائم ہوئی، مگر اس کا ایک اہم ترین موڑ تیس اکتوبر 2011ءکا لاہور جلسہ تھا۔ بہت سے اہم رہنما اس جلسے کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے ، آج وہ صف اول میں ہیں۔ 2013ءسے 2018ءکا دور تحریک انصاف کی اپوزیشن کا تھا، مسلم لیگی حکومت کا اس نے مقابلہ کیا، مشکلات بھی سہنا پڑیں۔ اس زمانے میں جو پارٹی کے ساتھ ثابت قدم رہا، اسے بھی توقیر کی نظر سے دیکھا گیا۔عثمان بزدارکسی صف میں موجود نہیں۔وہ لاہور جلسہ کے بعد کی لہر میں بھی باہر بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ ان کا تحریک انصاف سے کبھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ آج بھی نہیں اور اغلباً مستقبل میں بھی نہ رہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کے لئے وہ اجنبی تھے، اجنبی ہی رہے۔ انہوں نے کارکنوںسے رابطہ رکھنے، ان کا دل جیتنے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ یہ ان کی ترجیح ہی نہیں۔

سیاسی جوڑ توڑ: سیاسی چالبازیاں، جوڑ توڑبھی ہماری روایتی سیاست کا اہم جز ہے۔ مختلف سیاسی شخصیات سے ذاتی تعلقات، ذات برادری کی دھڑے بازی میں مہارت اور مختلف گروپوں کو اپنی طرف کھینچے کا ہنر سیاست میں ممتاز بنا دیتا ہے۔ گجرات کے چودھری اسی صلاحیت کی بنا پرہر دور میں اہم رہے اور بڑے منصب بھی حاصل کئے۔ جناب عثمان بزدار نے ابھی تک اس حوالے سے اپنی کوئی صلاحیت یا مہارت ثابت نہیں کی۔ وہ اکیلے ایم پی اے کے طور پر آئے تھے ، ابھی تک تنہا ہی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کو معمولی سی برتری حاصل ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے سپیکر کا انتخاب لڑا تو درجن سے زائد مسلم لیگی ووٹ حاصل کئے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر چودھری چاہیں تو ن لیگ کا اچھا خاصا بڑا حصہ فارورڈ بلاک کے طور پر الگ ہوجائے گا اور پنجاب حکومت طاقتور ہوجائے گی۔ اقتدار کے باوجود یہ ہنر ، صلاحیت بزدار صاحب اپنے اندر نہ پیدا کر سکے۔ نظریاتی سیاست تو خیر انہوں نے کرنی ہی نہیں، روایتی سیاست میں بھی وہ پیچھے رہ گئے۔
ویژن: سیاسی جماعتیں اور قائدین کبھی ایسے شخص کو بھی اہم عہدہ دے دیتے ہیں جو معروف یا تجربہ کار نہیں ، مگر اس کے پاس گورننس کا کوئی ماڈل ، اچھا ویژن موجود ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک طرح کا جوا ہی ہوتا ہے، مگر بہرحال اس میں یہ نکتہ موجود رہتا ہے کہ اگر اس شخص نے اپنے ویژن کا مظاہرہ کیا، کچھ مختلف انداز میں کام کر دکھایا، لوگوں میں پزیرائی ملی تو اس کا فائدہ جماعت ہی کو ملے گا۔ کاش آج کوئی ہمیں یہ بتا سکتا کہ جناب بزدار کا ویژن کیا ہے؟ وہ تو ہمیں بتانے میں ناکام رہے۔
سحرانگیز خطابت : ہم نے پاکستانی سیاست میں کئی ایسے کردار دیکھے ہیں جو زیادہ قابل یا اہل نہیں ، مگر چرب زبانی ان پر ختم ہوتی ہے۔ اپنی سحرانگیز خطابت سے وہ پارٹی اور لیڈر کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ نرم اور میٹھی زبان کی وجہ سے وہ مخالف جماعتوں میں بھی دوست بنا کر اپنی جماعت کے لئے سیاسی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ افسوس کہ عثمان بزدار میںیہ بات سرے سے موجود نہیں۔ وہ طبعاً شرمیلے اور نہایت کمزور مقرر ہیں۔ ابھی تک ایک آدھ انٹرویو کے سوا انہیں میڈیا سے بھی بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہوسکا۔
گورننس: سب سے اہم بات کسی شخص کی مستعدی، ہوشیاری، سمجھداری اور فعال ہونا ہے۔ وہ انتظامی معاملات کو کس خوبی سے سمجھتا اور درست فیصلے کرتا ہے۔ اس میں انرجی بے پناہ ہو، بیوروکریسی کو بھی کنٹرول میں رکھے اور اپنے فیصلوں کا بھرپور فالو اپ کر کے عملدرآمد کرائے۔ ترقیاتی منصوبوںپر کڑی نظر رکھے اور آٹھ ماہ کا کام چھ ماہ میں کرا ڈالے۔ شہباز شریف پر تنقید کے بہت سے پہلو ہیں، مگر بہرحال وہ مضبوط ایڈمنسٹریٹرتھے، بیوروکریسی سے کام لینا آتا تھا اور بڑے پراجیکٹ کو کسی جن کے انداز میں بروقت بلکہ جلدی مکمل کرا ڈالتے۔ خامیاں بھی تھیں، جن کے باعث ان پر تنقید بھی ہوتی تھی۔ شہباز شریف جیسے انتہائی متحرک اور فعال وزیراعلیٰ کے بعد عثمان بزدار جیسا وزیراعلیٰ بنانا عمران خان کا پنجاب کے عوام کے ساتھ ایک بھونڈا، بھیانک مذاق ہی ہوسکتا ہے۔

کارکردگی : عثمان بزدار کے حق میں کوئی ایک بھی منطقی دلیل نہیں۔ کسی بھی پیمانے سے انہیں یہ منصب نہیں ملنا چاہیے تھا۔ عمران خان اگر یہ کہتے ہیں کہ ان کی پرفارمنس اچھی ہے تو پھر اس کی مثال بھی دیں۔ پنجاب کے لوگ اندھے نہیں ۔ وہ کیسے خان صاحب کی صریحاً غلط بات کو تسلیم کریں؟ بزدار صاحب کی اب تک کی کارکردگی ہی دیکھ لیں۔ کون سا شعبہ ایسا ہے جس میں بہتری ہوئی؟جو شعبے ٹھیک چل رہے تھے، ان میں البتہ تباہی آئی۔ ڈینگی کی آفت پنجاب سے ٹل چکی تھی، خوفناک انداز میں پھر حملہ آور ہوئی اور ہزاروں لوگ نشانہ بنے، کئی لقمہ اجل بنے۔ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں ، لا اینڈ آرڈر ہر جگہ افراتفری اور ابتری ہے۔ کرپشن کے ریٹ کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ جو چیزیں مہنگی ہونے سے روکی جا سکتی تھیں، وہ بھی نہ کی جا سکیں۔ ابھی آٹے کا بحران ہی دیکھ لیں۔ یہ صاف بدانتظامی اور نالائقی ہے۔ اس سے بڑھ کر بیڈ گورننس کی اور مثال کیا پیش کی جا سکتی ہے؟

حق تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے وزیراعظم عمران خان کو ایک فیصد بھی سپورٹ فراہم نہیں کی۔ ان کے مسائل کم کرنے کے بجائے بڑھائے۔بوجھ بٹانے کے بجائے مزید ڈالا۔ اگر اب بھی عمران خان ان کی کارکردگی کو اچھا کہتے ہیں تو انہیں خود اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ اس بار مافیاز خان صاحب کے مخالف نہیں، خود ان کی اپنی کمزوریاں، مردم شناسی کی کمی اور ناتجربہ کاری انہیں ڈبو رہی ہے۔

بشکریہ ڈیلی 92 نیوز

اپنا تبصرہ بھیجیں