عمران خان

عمران خان اکیلا کرپشن سے نہیں لڑسکتا، عدلیہ بھی ساتھ دے ،پوری قوم کومل کر کرپشن کا مقابلہ کر نا ہوگا ،وزیر اعظم

اسلام آباد (عکس آن لائن)وزیر اعظم عمران نے ایک بار پھر کہا ہے کہ عمران خان اکیلا کرپشن سے نہیں لڑسکتا،عدلیہ بھی ساتھ دے ،پوری قوم کومل کر کرپشن کا مقابلہ کر نا ہوگا ،حکمران جب کرپشن کرتے ہیں تو اپنا پیسہ ملک میں نہیں رکھ سکتے ،پیسہ ملک سے باہر بھیج کر ملک کا دوگنا نقصان پہنچاتے ہیں،پورا زور لگا رہے ہیں ،

امیر ممالک سے ہمارا پیسہ واپس آئے،کرپٹ لوگوں کو دعوتوں میں ایسے بلایا جاتا ہے جیسے انہوں نے کشمیر فتح کیا ہو، کرپٹ لوگ جیل سے یا نیب سے نکل رہے ہوتے ہیں تو لوگ ان پر پھول پھینک رہے ہوتے ہیں،گیس نیٹ ورک کو بڑھانے سے گیس کے قرضوں میں بھی اضافہ ہوگا،عمارتیں بنانے سے تعلیمی اداروں کا قیام نہیں ہوتا، پڑھانے والے اچھے ہوں تو تعلیم کا معیار بہتر ہوتا ہے،ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا نیا سربراہ لا رہے ہیں،مافیا سٹہ کھیلتے ہیں، ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، پہلی مرتبہ پاکستان مافیا ہاتھ ڈال رہا ہے،

مہنگائی کی وجوہات پر گزشتہ ایک سال سے کام کیا جارہا ہے ، ہم قابو پاکر دکھائیں گے،قبضہ مافیا بغیر پولیس اور سیاسی پشت پناہی کے بغیر کام نہیں کرسکتے، کئی اراکین اسمبلی اور سیاسی لوگوں نے بھی ملک میں قبضے کیے ہیں،عوام قبضہ بارے سٹیزن پورٹل پر نشاندہی کریں، صوبوں اور گلگتـبلتستان میں ہر شہری کو صحت کارڈ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے بہت بڑا انقلاب آئے گا،کورونا کی تیسری لہر سب سے زیادہ خطرناک ہے ،سب احتیاط کریں ۔

اتوار کو عوام سے ٹیلی فون پر براہ راست گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہاکہ گیس نیٹ ورک کو بڑھایا جائے تو اسے موجودہ قیمت پر دینا مشکل ہوگا کیونکہ ہم گیس مہنگی خرید کر سستے میں عوام کو فراہم کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گیس نیٹ ورک کو بڑھانے سے گیس کے قرضوں میں بھی اضافہ ہوگا۔تعلیم کے معیار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ انسان کو جتنی بہتر تعلیم دی جائے وہ اتنا اوپر جاتا ہے۔انہوںنے کہاکہ عمارتیں بنانے سے تعلیمی اداروں کا قیام نہیں ہوتا، وہاں پڑھانے والے اچھے ہوں تو تعلیم کا معیار بہتر ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اپنے نظرئیے کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا نیا سربراہ لا رہے ہیں اور اس ادارے میں بڑی تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ایک خاتون کی جانب سے مہنگائی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے کہا کہ مہنگائی کئی قسم کی ہے، ایک مہنگائی یہ ہے کہ ایک دکان میں ایک چیز ایک قیمت پر مل رہی ہے اور وہی چیز دوسری دکان پر دوسری قیمت پر مل رہی ہے، تو اس قسم کی مہنگائی کو تو ہم انتظامیہ کے ذریعے کنٹرول کر سکتے ہیں۔دوسری مہنگائی یہ ہے کہ کسان ایک چیز تیار کر کے مارکیٹ میں لیکر جاتا ہے اور جب وہ چیز عوام کے پاس پہنچتی ہے تو اس کی قیمت میں ایک بہت بڑا فرق آ جاتا ہے، کسان کو پورے پیسے نہیں ملتے لیکن مڈل مین اس سے بہت بڑا پیسہ بنا رہے ہیں۔

اس کا ہم توڑ لیکر آ رہے ہیں جس کے ذریعے سے ہم منڈی سے براہ راست سبزیاں اور پھل عوام تک پہنچائیں گے جس سے کسان کو بھی اچھی قیمت ملے گی اور لوگوں کے لیے بھی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔وزیراعظم نے کہاکہ مہنگائی کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے آنے سے پہلے ڈالر 124 روپے کا تھا اور 2018 کے بعد بڑھتے بڑھتے ڈالر 160 روپے تک پہنچ گیا تاہم اب اللہ کا شکر ہے کہ ہماری معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور روپیہ مضبوط ہو رہا ہے، اس کا فوری اثر تو یہ پڑا کہ ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت کم ہو رہی ہے لیکن جب ڈالر 107 روپے سے 150 روپے پر گیا تو اس کا اثر بجلی کی قیمت پر پڑا، پاکستان میں آدھی بجلی تیل سے بنتی ہے جو امپورٹ ہوتا ہے، پھر بجلی کے سارے معاہدے ڈالرز میں سائن کیے گئے ہیں اور جب ڈالر کی قیمت بڑھی تو اس کا اثر بجلی کی قیمت پر بھی پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ جب ڈیزل کی قیمت بڑھی تو اس کی وجہ سے ساری ٹرانسپورٹ کی قیمت بڑھ گئی اور پھر کھانے پینے کی اشیاء بھی ہم باہر سے منگواتے ہیں، 70 فیصد کھانے کا تیل اور زرعی ملک ہونے کے باوجود 70 فیصد دالیں ہم درآمد کرتے ہیں۔ پھر آبادی بڑھنے اور غلط ٹائم پر بارشیں ہونے کی وجہ سے ہم نے ایک سال کے دوران 40 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی۔انہوںنے کہاکہ ایک چیز یہ سامنے آئی ہے کہ جان بوجھ کر قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں، ایک مافیا ہے جو تھوڑے سے لوگ ہیں اور اربوں اربوں روپے کماتے ہیں، آٹے اور چینی کے حوالے سے ہمارے پاس ایف آئی اے کی رپورٹ ہے کہ کس طرح سے آٹے اور چینی کی قیمتیں جان بوجھ کر بڑھائی گئیں، ہم نے پاکستان میں پہلی بار بڑے مافیاز کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے، آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم سارا وقت اس پر کام کر رہے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم ایگری کلچر کے حوالے سے ایک انقلابی پالیسی لیکر آ رہے ہیں جس سے ہم نے اپنا ایگری کلچر کا سارا سیکٹر ہی تبدیل کر دینا ہے، ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے پہلے سے پتہ چل جائے گا کہ کس سیزن میں کون سی چیز کی کمی ہوتی ہے تاکہ کسی قسم کی قلت نہ ہو اور قلت ہونے کے باعث قیمتیں اوپر نہ چلی جائیں۔

وزیر اعظم نے بتایا کہ یہاں مافیا سٹہ کھیلتے ہیں، ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، پہلی مرتبہ پاکستان ان پر ہاتھ ڈال رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجوہات پر گزشتہ ایک سال سے کام کیا جارہا ہے اور ہم اس پر قابو پاکر دکھائیں گے۔ادویات مہنگی ہونے اور ڈاکٹروں کی ادویہ ساز کمپنیوں سے کمیشن کے لیے من مانی ادویات کی تجویز دینے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے تاہم 3 صوبوں اور گلگتـبلتستان میں ہر شہری کو صحت کارڈ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے بہت بڑا انقلاب آئے گا۔انہوںنے کہاکہ اس کے ذریعے نجی سیکٹر کے ہسپتال گاؤں دیہاتوں میں کھل رہے ہیں، سرکاری زمینوں کو سستے داموں ہسپتالوں کے قیام کے لیے نجی شعبوں کو فراہم کیا جائے گا جس سے ہسپتالوں کے درمیان مقابلہ بڑھے گا اور صحت کی سہولیات بہتر ہوں گی۔کرپشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہون نے کہا کہ کرپشن ایک ایسا کینسر ہے جو دنیا کے ہر غریب ملک میں پھیلا ہے۔

انہوںنے کہاکہ حکمران جب کرپشن کرتے ہیں تو وہ اپنا پیسہ ملک میں نہیں رکھ سکتے اور پھر وہ پیسہ ملک سے باہر بھیج کر ملک کا دوگنا نقصان پہنچاتے ہیں۔انہون نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق غریب ممالک سے ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر چوری ہوکر امیر ممالک میں جاتا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم پورا زور لگارہے ہیں کہ امیر ممالک سے ہمارا پیسہ واپس آئے تاہم وہ اس میں رکاوٹ اس لیے ڈال رہے ہیں کیونکہ انہیں فائدہ ہورہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ کرپشن کے خلاف صرف قانون کے ذریعے نہیں لڑا جاسکتا، پوری قوم مل کر کرپشن کا مقابلہ کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان اکیلا اس کرپشن سے نہیں لڑسکتا، عدلیہ کو بھی اس میں ساتھ دینا ہوتا ہے، نیب کو صحیح کیسز بنانے ہوتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ہمارے یہاں کرپٹ لوگوں کو دعوتوں میں ایسے بلایا جاتا ہے جیسے انہوں نے کشمیر فتح کیا ہو، کرپٹ لوگ جیل سے یا نیب سے نکل رہے ہوتے ہیں تو لوگ ان پر پھول پھینک رہے ہوتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ قانون کی بالادستی، عدل و انصاف اصل مسئلہ ہے اور پاکستان میں اسی کی جنگ چل رہی ہے۔وزیر اعظم نے کہاکہ کورونا کی تیسری لہر سب سے زیادہ خطرناک ہے لہذا سب کو چاہیے کہ احتیاط کریں اور ماسک پہننا سب سے آسان احتیاط ہے۔ بعد ازاں وزیر اعظم نے معاون خصوصی برائے احتساب سے چینی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے عوام کو وضاحت دینے کا کہا اس پر شہزاد اکبر نے کہا کہ 60 کی دہائی سے چینی کی قیمت پر سٹہ کھیلا جارہا ہے اور چند گروہ اس سے بڑا منافع کماتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 3 سے 4 ماہ میں پاکستان کی ضرورت سے زائد چینی ہوتی ہے تاہم اس کا اسٹاک ملوں میں ذخیرہ کرلیا جاتا ہے اور سٹے باز اس کی قیمت طے کرتے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں 60 سالوں سے یہ ہورہا ہے، اس سے عام عوام متاثر ہوتی ہے، ان کے خون چوس کر یہ لوگ پیسے بناتے تھے اور آج تک ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ انہیں روکا گیا ہے، اس کا مقصد پاکستان کی عوام کو مہنگائی سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔وزیر اعظم نے ایک کالر کی بحریہ کراچی میں پلاٹ کے لیے رقم ادا کرنے پر بھی پلاٹ نہ ملنے کی شکایت پر ان کی پریشانی کو حل کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ پاکستان کے لیے قبضہ مافیا عذاب بنا ہوا ہے۔انہوںنے کہاکہ قبضہ مافیا بغیر پولیس اور سیاسی پشت پناہی کے بغیر کام نہیں کرسکتے، کئی اراکین اسمبلی اور سیاسی لوگوں نے بھی ملک میں قبضے کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوام سے اپیل ہے کہ کسی بھی سرکاری زمین پر کسی گروپ نے قبضہ کیا ہے تو اس کی سٹیزن پورٹل پر نشاندہی کریں، ہم نے ان کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں