اسلام آباد(عکس آن لائن) سینئر پارلیمنٹرین مشاہد حسین سید نے اپنی حکومت کو پی ٹی آئی سے مذاکرات اور آئین کے مطابق الیکشن کرانےکا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ حکومت پی ٹی آئی سے آئین اور شیڈول کے مطابق الیکشن کے رول آف گیمز طے کرے، انتخابات کے لیے آئین پر عمل تو کرنا ہوگا، یہی حل ہے، جبکہ وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے نکشاف کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت سے تشویش ناک خط موصول ہوا ہے،خط کے بارے میں فورا وزیراعظم کو بتادیاتھااس پر کام ہورہاہے ۔
قائدحزب اختلاف نے کہاکہ سندھ طاس پرمعاملات خوشامد سے نہیں مضبوطی سے کھڑے ہونے سے حل ہوں گے پاکستان کی قوم اس کی اجازت نہیں دے گی کہ پاکستان کی سلامیت پر حملہ ہو۔سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ بھارت کو سخت جواب دینا ہوگا ورنہ پانی نہیں ہوگا ، اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہاہے حکومت کو دیر نہیں کرنی معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ۔
جمعہ کوسینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کے لیے 25جنوری 2023کو بھارت کی طرف سے سندھ طاس کمیشن کے ذریعے بھیجے گئے نوٹس کی طرف وزیر برائے آبی وسائل کی توجہ مبذول کرائی جائے گی پر قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہاکہ پاک بھارت میں کئی جنگوں کے بعد بھی سندھ طاس معاہدہ قائم ہے ۔تین دریا بھارت اور تین پاکستان کے حصے میں آئے ۔بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے کئی شقوں کی خلاف ورزی کی ۔
بھارت نے پاکستانی دریاﺅں پر ڈیم بنائے اور پاکستان کے دریاو¿ں کے رخ تبدیل ہونے کی شکایت ہوئی ۔ دریا نیلم کا پانی کو بھارت نے موڑ دیا ۔ بھارت پابند ہے کہ وہ کوئی بھی منصوبہ بنانے سے پہلے پاکستان کو بتائے ۔بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان کو نوٹس بھیجا ہے اور 90دن میں جواب بھی مانگا ہے ۔بھارت کہتا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کو دوبارہ دیکھاجائے ۔ بی جی پی کی بنیاد پاکستان دشمنی پر بنیاد ہے ۔پاکستان کوموسمیاتی تبدیلی کا بھی سامنا ہے ۔ حکومت کو سیاسی مخالفین سے فرصت ملے تو اس قومی معاملے کو بھی دیکھیں ۔
یہ معاملات خوشامد سے حل نہیں ہوسکتے ہیں مضبوطی سے کھڑے ہونے سے یہ مسائل حل ہوں گے پاکستان کی قوم اس کی اجازت نہیں دے گی کہ پاکستان کی سلامیت پر حملہ ہو۔جی یوآئی کے سینیٹرکامران مرتضی نے کہاکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کا نوٹس بھیجا ہے اس معاہدے میں پہلے بھی پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی ۔1960سے اب تک یہ معاہدہ برقرار ہے ۔
بھارت کہے رہاہے کہ آپ پانی پہلے ضائع کررہے ہیں اس کی وجہ سے معاہدے پر نظر ثانی کریں ۔پانی پر ہم 4بھائی متفق نہیں ہورہے ہیں ۔بین الاقوامی فورم پر ہمارے وکلا اور ذمہ داران بیمار ہوجاتے ہیں ۔پاکستان کے مفاد میں ہے کہ پانی کی قلت نہ ہو توپہلے آپس میں بیٹھنا ہوگا اور بعد میں بھارت کو سخت جواب دینا ہوگا ورنہ پانی نہیں ہوگا ۔پہلے پورے برصغیر کو گندم فراہم کرتے تھے آج اپنے لیے گندم نہیں ہے ۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہاہے ۔اس معاملے پر دیر نہیں کرنی ہے۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹرمشاہدحسین سید نے کہاکہ 20ویں صدی میں تیل اور 21ویں صدی میں جنگیں پانی پر ہوں گئیں۔بھارت نے جو نوٹس دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر کمزوری ہے2022میں ساری طاقت کون بنے گا چیف پر ضائع کردی ہے ۔ہم بھارت کو جواب دے سکتے ہیں ۔ 5اگست کو کشمیر کے حوالے سے بھارت کے اقدامات پر سخت جواب اس وقت کی حکومت اور فوج نے صحیح جواب نہیں دیا۔ بھارت کے نوٹس پر بھی جواب نہیں دیا ۔بھارت اکیلا نہیں ہے اس کے ساتھ امریکہ بھی ہے ۔
چین ہمارا بہترین دوست ہے ۔ الیکشن شیڈول کے مطابق ہونے چاہیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنا ہوگا فون کال کا انتظار نہ کریں اگر ہم لڑتے رہے تو جنرل آئندہ خان آئے گا الیکشن آئین کے مطابق ہونے چاہیے ۔سینیٹر مشاہد حسین نے حکومت کو پی ٹی آئی سے مذاکرات اور آئین کے مطابق الیکشن کرانےکا مشورہ دےتے ہوئے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی سے آئین اور شیڈول کے مطابق الیکشن کے رول آف گیمز طے کرے، حکومت اور پی ٹی آئی غیر ضروری لڑائیوں سے گریز کریں، انتخابات کے لیے آئین پر عمل تو کرنا ہوگا، یہی حل ہے۔
ہم سپریم کورٹ سے اور پی ٹی آئی فوج سے غیر ضروری لڑائی میں مصروف ہے، پاکستان کے اندر قومی اتحاد کی ضرورت ہے، مودی کو مذاکرات کا کہتے ہیں، طالبان سے بات کرنے کو تیار ہیں تو پی ٹی آئی سے کیوں نہیں؟ ملک کے لیے اندرونی معاملات پر بات چیت کرنا ہوگی،کبھی کسی پر الزام لگا رہے ہیں کبھی کسی پر۔توجہ دلاو¿ نوٹس کاجواب دیتے ہوئے وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمن نے کہاکہ بھارت کی طرف سے خط آیا ہے جو تشویش ناک ہے ۔پہلے کبھی بھارت کی جانب سے اس طرح کا تشویشناک خط نہیں آیا ۔
خط آنے کے بعد فورا وزیراعظم کو بتادیا گیا ہے اس پر کام ہورہاہے ۔ خط کامتن مبہم ہے بھارت نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔ بھارت میں اگلے سال الیکشن ہیں اس لیے مودی نے اس معاملے کو اٹھایا ہے ۔ اس خط کے حوالے سے افراتفری نہیں ہونی چاہیے بھارت اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتا ہے ۔دونوں فریقین کی رضامندی کے بغیر اس معاہدے میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔ اس معاملے پر ورلڈ بینک ہی ثالثی کرئے گا ۔ہم اس معاملے کو میڈیا میں اس لیے نہیں لانا چاہتے کہ بھارت یہی چاہتا ہے ۔پاکستان بلکل پریشان نہیں ہے ہم اپنے حقوق جانتے ہیں ۔