اسلام آباد(عکس آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کے 10بلین ٹری سونامی منصوبے کے معاملہ پر نوٹس لیتے ہوئے تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔ منگل کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے دریاؤں اور نہروں کے کناروں پر شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔دور ان سماعت سندھ حکومت کی طرف سے رپورٹ نہ آنے پر عدالت نے سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ جھیلوں اور شاہراؤں کے اطراف بھی درخت لگائے جائیں۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ عدالتی حکم عدولی پر سندھ کے افسران کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کریں گے، سندھ کے افسران جیل بھی جائیں گے اور نوکری سے بھی، توہینِ عدالت کا نوٹس ملا تو ساری جمع پونجی ختم ہو جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ بڑی مغرور ہے، اسلام آباد میں 5 لاکھ درخت کہاں لگائے ہیں؟اسلام آباد انتظامیہ کے حکام نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ نے سارے درخت بنی گالہ میں ہی لگائے ہوں گے، اسلام آباد میں درخت کٹ رہے ہے، کشمیر ہائی وے پر بے ترتیب درخت لگے ہیں، درخت خوبصورتی کے بجائے بد صورتی پیدا کر رہے ہیں۔سی ڈی اے کے ڈائریکٹر ماحولیات نے عدالت میں کہا کہ 2 سال سے کوئی فنڈ نہیں ملا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا میں کتنے خوبصورت پودے سڑکوں کے کنارے لگے ہوتے ہیں، ہمارے ملک میں سڑکوں کے کنارے جنگل بنا دیا جاتا ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ پاکستان نے سیکریٹری ماحولیات کے پی کے کی بھی سرزنش کی اور کہا کہ آپ کو تو سیدھا جیل بھیج دینا چاہئے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمراٹ میں درخت کٹتے ہوئے خود دیکھ کر آیا ہوں، وہاں ہزاروں درخت کاٹے جا رہے ہیں۔سیکرٹری ماحولیات کے پی کے نے عدالت کو بتایا کہ مقامی آبادی کے لیے درجہ حرارت کم ہونے پر درخت کاٹنے کا کوٹا دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے حکم دیا کہ کسی کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، ناران کاغان کچرا بن چکا، جھیل کے اطراف کوئی درخت نہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ خیبر پختون خوا کا محکمہ ماحولیات چور اور آپ اس کے سربراہ ہیں، نتھیا گلی میں درخت کٹ رہے ہیں اور پشاور میں تو موجود ہی نہیں، آپ کو کس قسم کا ہیلی کاپٹر چاہیے کہ آپ جنگلات کا دورہ کر سکیں؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ درخت قوم کی دولت اور اثاثہ ہیں، مالم جبہ سمیت جہاں چلے جائیں کٹائی ہی کٹائی ہو رہی ہے۔کے پی کے حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں نہروں اور دریائوں کے اطراف 78 لاکھ درخت لگائے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیکریٹری صاحب کام نہیں کریں گے تو جیل بھی جائیں گے اور نوکری سے بھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ 430 ملین درختوں کو چیک کرائیں گے، کس نسل کا درخت کس علاقے میں لگایا گیا، اگلی نسل کے پاس کچھ نہیں، درخت نہ لگائے تو سانس لینا مشکل ہوگا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آج رپورٹ آئی ہے کہ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 10 ارب تو بہت بڑی بات ہے، کراچی، لاہور اور پشاور جاتے ہیں، ایک درخت لگا نہیں دیکھا،
درختوں کی زیادہ ضرورت شہروں میں ہے، ملک سے شیشم تو غائب ہی ہو گیا ہے، پہلے ہائی ویز پر سفر کرتے تھے تو گاڑی پر چھائوں ہوتی تھی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سندھ میں جو بھی فنڈز جاتے ہیں وہ ڈوب جاتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں جتنا بھی فنڈ چلا جائے لگتا کچھ نہیں، سندھ میں انسانوں کا جینا مشکل ہے تو درخت کیسے رہیں گے؟ سندھ میں ڈاکو پکڑنے کے نام پر لاڑکانہ اور سکھر کے بیچ جنگل کاٹا گیا، سندھ پولیس ڈاکو تو کیا ایک تتلی بھی نہیں پکڑ سکی، پورے پورے جنگل صاف ہوگئے لیکن پکڑا کوئی نہیں گیا۔محکمہ جنگلات کے حکام نے کہا کہ سندھ میں 50 لاکھ درخت لگائے گئے ہیں، سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہیں ہو رہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ نہروں اور دریائوں کے اطراف درخت عدالت نے لگوائے، بلین ٹری سونامی منصوبے کے درخت کہاں گئے؟وفاقی سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے بتایا کہ بلین ٹری منصوبے پر صوبائی حکومتیں عمل کر رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے آپ کی بات سنتے ہی کہاں ہیں، بلوچستان میں تو بلین ٹری منصوبے کا وجود ہی نہیں، ملک کی کسی ہائی وے کے اطراف درخت موجود نہیں، کلرکہار میں درخت کاٹ کر ہائوسنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بلین ٹری منصوبے سے متعلق دعوے کے شواہد بھی دیں، کیا بلین ٹری منصوبے کی تصدیق بھی کرائی جا رہی ہے؟عدالتِ عظمیٰ نے بلین ٹری منصوبے کے تحت درخت لگانے کی عدالتی تصدیق کا بھی عندیہ دے دیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ملک بھر میں موجود مجسٹریٹس کے ذریعے درخت لگنے کی تصدیق کرائیں گے۔عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکریٹری پلاننگ اور چاروں صوبائی سیکریٹریز جنگلات کو بھی طلب کر لیا۔سپریم کورٹ نے 10 بلین سونامی منصوبے کی تمام تفصیلات طلب کر لیں اور حکم دیا کہ آگاہ کیا جائے کہ منصوبے پر اب تک کتنے فنڈز خرچ ہوئے؟ فنڈز خرچ ہونے کا جواز بھی ریکارڈ کے ساتھ پیش کیا جائے۔
عدالتِ عظمیٰ نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی سے سیٹلائٹ تصاویر بھی منگواتے ہوئے حکم دیا کہ کتنے درخت کہاں لگے ہیں؟ اس کی تمام تفصیلات تصاویر سمیت فراہم کی جائیں۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔