سپریم کورٹ

دو صوبوں میں عام انتخات کا کیس، فریقین کو نوٹسز جاری ، سپریم کورٹ نے تحریک انصاف اور حکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی طلب کر لی

اسلام آباد(عکس آن لائن)چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کیس میں فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے تحریک انصاف اور حکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی طلب کر لی، ججز نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، آرٹیکل 254آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا،

تفصیلات کے مطابق پیر کوچیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں لارجر بنچ نےپنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعتکی، بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں،عدالت میں الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان، تحریک انصاف کے وکلا علی ظفر اور بیرسٹر گوہر پیش ہوئے،چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق الیکشن کی تاریخ آگے کرنا درست نہیں ہے؟

الیکشن کی تاریخ میں توسیع کرنا کیسے غلط ہے آگاہ کریں،پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر صدر نے 30اپریل کی تاریخ مقرر کی، گورنر خیبرپختونخوا نے حکم عدولی کرتے ہوئے تاریخ مقرر نہیں کی، الیکشن کمیشن نے پنجاب میں الیکشن شیڈول جاری کیا، الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ منسوخ کر دی،علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم کی 3مرتبہ عدولی کی گئی، الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا، دوسری خلاف ورزی 90دن کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کی ہے،انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کا مقصد انتخابات ہوتا ہے جو 90روز میں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ الیکشن 90دن سے پانچ ماہ آگے کر دیئے جائیں،

الیکشن کمیشن نے آئین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے، عدالت نے 90روز سے تجاوز صرف انتخابی سرکل پورا کرنے کی اجازت دی تھی، وزارت داخلہ اور دفاع نے سکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے انکار کیا، آئین انتظامیہ کے عدم تعاون پر انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عمل درآمد کرائے، جسٹس جمال نے کہا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد ہائی کورٹ کا کام ہے،علی ظفر نے کہا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے، معاملہ صرف عدالتی احکامات کا نہیں، دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائی کورٹ نہیں سن سکتی،

سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کر چکی ہے، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی ختم نہیں ہوا،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، اس پر علی ظفر نے کہا کہ یہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کر سکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی ہے، کیا یہ الیکشن کمیشن کے موقف میں تضاد نہیں ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام پانچ ججز کے دستخط ہیں، ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے دو فیصلے ہوں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ معمول کی بات ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254کا سہارا لیا جا سکتا ہے؟وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ آرٹیکل 254کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جاسکتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے،چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 254آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کرسکتا،

آرٹیکل 254آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا،بعدازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کیس میں فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے، سپریم کورٹ نے تحریک انصاف اور حکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی طلب کر لی،چیف جسٹس نے کہا کہ انتہائی افسوناک صورت حال ہے کہ تمام فریقین دست و گریبان ہیں، تحریک انصاف اور حکومت یقین دہانی کرائے کہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں یا نہیں؟ ہم ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، جب تک تمام فریقین راضی نہ ہوں، آئین کی تشریح حکومتیں بنانے یا حکومتیں گرانے کے لیے نہیں ہوتی، آئین کی تشریح عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے،سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیئے کہ قیام امن کے لیے تحریک انصاف نے کیا کردار ادا کیا ہے؟

الیکشن چاہتے ہیں تو فریقین کو پرامن رہنا ہوگا،عدالت نے شفاف انتخابات کیلئے پی ٹی آئی اور حکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی مانگ لی،چیف جسٹس نے کہا کہ یقین دہانی کیسی ہوگی یہ فیصلہ دونوں فریقین خود کریں، عوام کیلئے کیا اچھا ہے کیا نہیں اس حوالے سے فریقین خود جائزہ لیں،انہوں نے کہا کہ انتخابات پرامن، شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں، الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کو چلانے کیلئے بہت اہم ہے، الیکشن کا عمل شفاف اور پرامن ہونا چاہیے، آرٹیکل 218انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے، ہمارے لیڈرز نے اب تک کیا کیا ہے؟

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت آج ساڑھے 11بجے تک ملتوی کر دی،تحریک انصاف کی درخواست میں شامل فریقین کو نوٹسز جاری ہوئے جن میں وفاق، الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی بھی شامل ہیں، عدالت نے تمام فریقین سے منگل کل تک جواب مانگ لیا جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کیس کو دو سے تین دن تاخیر سے مقرر کرنے کی استدعا کی جو منظور نہ ہوئی،واضح رہے کہ تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی، کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں