جہالت کی انتہا

جہالت کی انتہا

جہالت کی انتہا۔۔۔۔۔۔
آج پی آئی سی پہ وکلا کی جانب سے کیا گیا حملہ کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل برداشت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ڈاکٹر اور وکیل ہمارے معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ کہلاتا ہے مگر گذشتہ کچھ عرصے سے اس طبقے نےجو رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے پہلے ڈاکٹرز اپنے مطالبات کے لیےسڑکوں پہ براجمان رہے اور ہسپتالوں کی ایمرجنسی اور او پی ڈیز کو بند کیے رکھا۔اور پھر کبھی وکلا راستے بند کر کے سراپا احتجاج نظر آئے۔احتجاج کرنا ہر جمہوری معاشرے میں کسی بھی فرد کا حق قرار دیا جاتا ہے مگر اس کے لیے جو طریقہ کار ہمارے ہاں اختیار کیا جارہا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے جمہوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔املاک کو نقصان اور انسانی جانوں کا ضیاع کہاں کا احتجاج ہے ؟؟؟

آج کے واقعے کے پیچھے گذشتہ دنوں پی آئی سی میں پیش آنے والا واقعہ ہے جسے دونوں طرف سے انا کا مسلہ بنا لیا گیا۔اور آج ڈاکٹر کی طرف سے جاری کردہ ویڈیو نے وکلا کو مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تاہم وکلا کی جانب سے دیا جانے والا ردعمل خطر ناک حد تک ناقابل معافی ہے۔ایک دل کے ہسپتال پہ یوں چڑھائی کی گی جیسے دشمن کا قلعہ فتح کرنا ہو۔اور پھر وہاں انتہائی نگداشت کی وارڈ میں مریضوں سے بدسلوکی اور توڑ پھوڑ غنڈا گردی کی انتہا کہی جاسکتی ہے۔وکلا براداری مشرف دور سے ایک تحریک کے نتیجے میں متحدہ ہوئی اور پھر اس براداری نے ریاست کے ہر شعبے کو اپنے طابع کرنا چاہا۔اج کا مسلہ سیاسی سے کہیں زیادہ انسانی ہے۔افسوس ناک بات یہ کے وکلا اب کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔آج کے پر تشدد واقعہ کے بعد ڈاکٹرز نے بھی پھر ہڑتال کا اعلان کردیا اور وکلا نے بھی احتجاج اور ہڑتال کا پروگرام مرتب کر لیا ہے۔وکلا تحریک کے روح رواں چوہدری اعتزاز احسن بھی آج شرمندہ نظر آئے ۔(جو کبھی مشرف دور میں شیرافگن کی گاڑی پہ چڑھ گئے تھے اور وکلا سے ان کی جان بچائی تھی)فیاض الحسن چوہان پہ تشدد نے آج اس کی واقعہ کی یاد تازہ کردی۔تاہم چوہان صاحب کا کردار قابل تعریف ہے کے انہوں نے تشدد کا شکار ہونے کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور پولیس کو ایک شیل بھی چلانے نہیں تھا ان کی دانشمندی سے ایک اور سانحہ ماڈل ٹاون ہونے سے بچ گیا۔
اب صورت حال انتہائی کشیدہ ہوتی جارہی ہے صوبائی حکومت نے تین ماہ کے لیے رینجرز کو طلب کر لیا ہے اور تمام سرکاری عمارتوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

ہونا تو اب یہ چایے کے وکلا اور ڈاکٹرز کی طرف سے سینیر افراد کو آگے بڑھ کے سارے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چایے اس معاملے کو حل کرنا چایےجو آج کی اس جذباتی نوجوان قیادت کی بس کی بات نظر نہیں آتی مگرسینر وکلا کی طرف سے خاموشی معنی خیز ہے۔۔۔۔۔

پس ثابت ہوا ڈگریوں کی بجائے ہیمیں تربیت کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عدم برداشت کا کلچر دن بدن پروان چڑھ رہا ہے۔۔قصور واروں کو بلاتفریق سزا دینی چایئے اور ریاست کی رٹ نظر آنی چایے۔جو کچھ ہو قانون کے مطابق ہو۔
ریاست کے ساتھ ساتھ اب ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں عدلیہ میڈیااور بار کا بھی امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں