ملیحہ سید

ایس پی ابرار حسین نیکوکارہ کی خودکشی

ملیحہ سید:

جس دن سے ایس پی ابرار حسین نیکوکارہ کی خودکشی کی خبر سنی ہے دل غم سے پھٹا جا رہا ہے۔ میری ان سے کوئی رشتہ داری نہیں اور نہ ہی کسی قسم کی ہیلو ہائے ہے۔ مگر ان کی خود کشی کی خبر نے مجھے بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس سے قبل ایم اے او کالج لاہور کے لیکچرار محمد افضل کی خود کشی نے بھی کئی دن سوچوں کو منتشر کیے رکھا۔ میرے خوف کی وجہ یہ بنی کہ تعلیمی اور عملی زندگی میں کامیاب افراد نجی زندگی کی ناکامی کو حتمی کیوں سمجھ لیتے ہیں۔ کیا وہی ایک فرد تھا زمانے میں کیا؟ کہ اس نے ساتھ چھوڑ دیا تو زندگی ختم ہو گئی۔

میرے نزدیک کسی بے وفا انسان کا آپ کی زندگی سے نکل جانا آپ کے حق میں بہتر ہے۔ ہمیں کسی ایسے انسان کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے جس کو ہماری ذات، عزت، خوشی اور وقار کی پروا نہیں۔ چھوڑ دینا چاہیے ایسے تعلق کو جو آپ کو اس نہج پر لے جائے جہاں سے وہ تو بڑی کامیابی سے واپس آ جائے مگر آپ یا تو بہت پیچھے رہ جائیں یا بہت آگے نکل جائیں اتنی آگے کہ زندگی کی سرحد ہی عبور کر جائیں۔

لیکچرار افضل ہوں یا پھر ایس پی نیکوکارہ میرے نزدیک ان دونوں نے خود کشی کر کے اپنی جان کو آزادی دے کر پیچھے رہ جانے والوں کی زندگی سزا بنا دی ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کو کوئی معاف نہیں کرے گا۔ وہ دونوں شاید اپنی نئی زندگی کا آغاز کر لیں مگر اس نئے تعلق میں احترام نہیں ہو گا وجہ ان کے شدید قسم کے رویوں کے ردعمل میں کسی نے اپنی جان دی ہے۔ کچھ کے نزدیک کسی کو اس حد تک ذہنی تناؤ کی طرف لے جانا کہ وہ اپنی زندگی سے کھیل جائے قتل کے برابر ہے۔ تو کیا قاتلوں کو سکون ملے گا کیا؟

دوسری جانب آپ اگر اپنے لائف پارٹنر سے راضی نہیں ہیں یا آپ اس پر، اس کے کردار پر شک کرتے ہیں تو ایک دوسرے کی زندگی جہنم بنانے کی بجائے احسن طریقے سے الگ ہونے میں کیا برائی ہے؟ طلاق کو ہوا بنا دیا گیا ہے اور خود کشی کو آسان کہ اس طرح نہ سہی چلو اس طرح تو جان چھوٹ جائے گی۔ اس موضوع پر بڑے ہی محترم بھائی، دوست سینئر شاعر، کالم نگار اور نفسیات دان ڈاکٹر دانش عزیز سے بات ہوئی تو انہوں نے بڑا مدلل جواب دیا کہ

” بعض اوقات جب انسان اتنی اونچائی پر چلا جائے تو وہ اپنے دکھ یا مسائل شئیر کرنے سے خوفزدہ رہتا ہے کہ کہیں بات باہر نہ نکل جائے، اور پتہ نہیں لوگ کیا سوچیں۔ بس یہ سوچ کہ لوگ کیا سوچیں گے شئیرنگ آپشن کلوز کر دی جاتی ہے اور وہ دباؤ اندر ہی اندر مضبوط ہوتا جاتا ہے اور اتنی طاقت حاصل کر لیتا ہے کہ ٹریگر دب جاتا ہے۔ “

ہماری زندگی میں سوفٹ کارنر موجود ہونے چاہیے، وہ ماں باپ، بہن بھائی، دوست سہیلی کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ وہ آپ کا قلم، آپ کی ڈائری، آپ کے پودے جانور، پارک کا کوئی خاموش بینچ، جھیل یا دریا کا کوئی سسنان کنارہ۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے جس سے آپ اپنی باتیں کر سکیں، خود کو درپیش مسائل شئیر کر کے ہلکا ہو سکیں۔ یاد رکھیں کہ ذہنی طور پر ہلکا پھلکا ہونا بہت ضروری ہے۔ ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہوں تو اپنی زندگی کے بدترین دور سے نکلنے کے لیے میں نے اپنی فیملی آور دوستوں سے شئیر کیا، سجدوں میں اللہ تعالیٰ سے بات کی، قرآن مجید فرقان حمید میں خود سے بات کی اور سکون پایا۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”اور تیرا رب نہیں بھولتا“۔ پھر مجھے سکون ملتا چلا گیا۔ ستر ماؤں جتنی محبت کرنے والا مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا۔ تب میں نے خود کو سمیٹا اور آگے چل دی۔ قلم کی طاقت ساتھ تھی اس لیے گذشتہ تین ماہ سے میں بھرپور لکھ رہی ہوں اور یہ بلاوجہ نہیں۔ ایک بات تو سمجھ لیں بلکہ تسلیم کریں کہ ازدواجی زندگی کی خوشیاں یا ایک سمجھنے والا لائف پارٹنر بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ کامیاب مرد یا عورتیں دونوں ہی اس صورتحال کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کچھ نکل جاتے ہیں، کچھ ٹھہر جاتے ہیں اور جو ٹھہر جاتے ہیں وہ زندگی کو نگلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مجموعی طور پر دونوں نے ہی برا کیا، گرداب سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں نہیں مارے۔ اپنے ساتھیوں کو سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ تناؤ کھانا شروع کر دیا اور آخر کار اپنے منصب سے ہٹ کر کام کر بیٹھے۔ ایک بات سمجھ لیں کہ زندگی میں سب سے زیادہ آسان اور مشکل کام ایک ہی ہے اور وہ ہے کسی بھی بدترین صورتحال میں خود کو سمجھانا کہ یہ جو بھی ہو رہا ہے سب وقتی ہے دائمی کچھ بھی نہیں۔ تو پھر خود کشی کر کے خسارے کا سودا کیوں کرنا۔ خود کشی بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے۔ جس کی معافی بھی نہیں مل سکتے۔

دوسری جانب پاکستان میں خود کشیوں کے رحجان میں خطرناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جبکہ صرف صوبہ سندھ میں خودکشی کے اعداد و شمار نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، پچھلے 5 برس میں 1300 سے زائد افراد نے اپنے ہی ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ عمر کوٹ، تھر اور میرپور خاص میں خودکشی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، صرف عمر کوٹ، میرپور خاص اور تھر پارکر میں 646 واقعات رپورٹ کیے گئے، خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور خواتین کی ہے، پچھلے ایک سال میں ان تین اضلاع میں 160 افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ صوبے میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے واقعات پر سندھ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں، یعنی ہر 40 سیکنڈ میں ایک فرد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اگر سندھ کی بات کی جائے تو میرپور خاص وہ ڈویژن ہے جہاں پانچ برس کے دوران خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے اور 646 افراد نے اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی جان لے لی۔ ان میں 356 خواتین، جب کہ 290 مرد تھے۔ خودکشیوں کے اعداد و شمار کے گراف میں حیدرآباد ڈویژن دوسرے نمبر ہے، جہاں مجموعی طور پر 299 افراد نے خودکشی کی، جن میں 183 مرد اور 116 خواتین تھیں۔ شہید بے نظیر آباد ڈویژن میں 181 افراد نے خودکشی کی، جن میں 106 مرد اور 75 خواتین تھیں۔

کراچی میں پچھلے پانچ سال کے دوران 107 افراد نے خودکشی کی، جن میں 82 مرد اور 25 خواتین شامل ہیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں 48 افراد نے خود کشی کی، جن میں 36 مرد اور 12 خواتین تھیں، جب کہ سکھر ڈویژن میں خودکشیوں کا رجحان سب سے کم رہا، جہاں 4 مرد اور 2 خواتین نے خودکشی کی۔ خودکشی کرنے والے افراد میں سے 702 افراد کی عمریں 21 سے 40 سال کے درمیان تھیں۔ جب کہ خودکشی کرنے والی خواتین میں اکثریت شادی شدہ تھی۔

خودکشی کے رجحان میں 2018 ء میں خطرناک ترین اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ایک سروے کے مطابق خودکشی کرنے والے 81 فیصد افراد کا تعلق پسماندہ طبقے، 18 فیصد کا متوسط طبقے، جب کہ صرف ایک فیصد کا تعلق صاحبِ ثروت طبقے سے تھا۔ ایک مستند سروے کے مطابق خودکشی کی سب سے بڑی وجوہات میں غربت، بے روزگاری، جہالت، معاشی صورت حال، زندگی کی بنیادی سہولیات نہ ہونا، قرضوں اور سود میں جکڑے ہونا، پسند کی شادی نہ ہونے سمیت تشدد، رویوں میں بدصورتی اور منشیات کا استعمال شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق خودکشی کرنے والے افراد کے لواحقین کی جانب سے قانونی کارروائی سے زیادہ تر گریز کیا جاتا ہے۔

یہ اعداد و شمار ایک ایسے ملک کے حوالے سے ہیں جہاں 97 فیصد افراد مسلمان ہے مگر عملی طور پر اکثریت منفی سوچوں کا شکار زیادہ رہتی ہے۔ یاد رکھیں کہ منفیت آپ کی سوچ اور فکر کی عمارت کو منہدم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں ان کی وجہ ہماری منفی سوچ ہے جس میں ہمیں اپنے سوا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا اور ہم اپنے وقتی سواد کے لیے دوسروں کی زندگیوں سے کھیل جاتے ہیں مگر ایسے لوگ فلاح نہیں پائیں گے اور ہمیشہ خسارے میں رہیں گے۔ بس ایک دوسرے کو آسانیاں دینے کی کوشش کیجئے اور رشتوں کو سوال بننے سے بچائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں