اب یہی کچھ تھا

اب یہی کچھ تھا

صبا ممتاز بانو

میرے گھر کے اندر انسانوں کے علاوہ بلا اور بلی گڈا اور وائیٹ جبکہ گھر کے باہر کتیا لوسی اور اس کا بیٹا سمبا رہتے ہیں۔ لوسی کی عادت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ جانا اپنا فرض سمجھتی ہے۔

میں اسے بہت سمجھاتی ہوں کہ تم گھر کے پاس رہو , ہم آجائیں گے مگر وہ بھلا کہاں سمجھتی ہے۔ سیانی بی کی طرح آگے پیچھے چلتی جاتی ہے۔ کل شام سات بجے ہم نے سوچا کہ بیکری اور پھل لینے جاتے ہیں۔ میں اور چھوٹی چل پڑے۔گھر سے باہر نکلےتو لوسی کے ساتھ سمبا بھی ہو لیا۔

اندھیرا ہوچکا تھا۔ چوک ہم سے دور ہے۔ لوسی اور سمبا کو کتوں سے بچاتے ہوئے چلتے جا رہے تھے۔ کنوینس بھی نہیں ملی۔ کھانے پینے کے شوق نے ٹانگوں کو کھڑا رکھا تھا۔ ہم نے بھی بیٹھنے نہیں دیں۔ ارے بھیا بھوک بڑی کہ تھکن۔

لوسی اپنا بڑا سا پیٹ مٹکائے ساتھ ساتھ تھی۔ سمبا کا ٹاؤن سے یہ پہلا سفر تھا۔سڑک پر چلتی ہوئی تیز ٹریفک اس کے لیے حیران کن تھی۔ شکر ہے کہ اس نے بھی سڑک کی بتیاں دیکھ لی تھیں۔

اپنی دھن میں چل رہی تھیں کہ دیکھا کہ سمبا غائب۔ لوسی کو ساتھ لیا اور چھوٹی اس کی تلاش میں پیچھے گئی۔ سمبا بڑے بڑے ٹرکو ں کو دیکھ کر ڈر گیا تھا۔اینٹوں سے بھرے ٹرک اکثر یہاں کھڑے رہتے تھے۔

خیر میں اکیلی کھڑی اس کا انتظار کرنے لگی۔ لفٹ والوں کا کوئی بھرو سہ نہیں ہوتا۔ نقاب والیاں تو ان کو سہلیاں لگتی ہیں۔ بھلا ہو کرونا کا نقاب کی عزت رکھ لی۔
ٹھوڑی دیر بعد چھوٹی سمبا اور لوسی کے ساتھ چلی آرہی تھی۔ پھر سے سفر شروع ہوا۔ چوک میں پہنچے تو بیکری پر تالے لگے تھے۔ ڈیپارٹمنٹل سٹور بند تھے ۔ ہو کا عالم تھا۔ آتی جاتی گاڑیاں تھیں اور بس کتے تھے۔

ساری چہل پہل سو گئی تھی۔ ہمیں یاد ہی نہیں رہا تھا کہ کرونا کی وجہ سے اب سب کچھ جلدی بند ہوجاتا ہے۔اب کیا ہوسکتا تھا۔ یہ چوک تو ساری رات کھلا رہتا تھا۔ ہر چیز دستیاب۔ رات بارہ بجے جب کبھی گھو م پھر کر ہم میاں بیوی آتے تو دن۔ میں سونے کے بھاؤ بکنے والا پھل رات کو کوڑیوں کے مول بک رہا ہوتا۔

وہ تو شکر ہے کہ محلے والوں کو خبر نہ ہوئی۔ کیا پتا کہ رات میں پھل لانے کے لیے ہماری ڈیوٹی لگا دیتے۔ یہ کم بخت پولیس مارے, پھلوں کی ریڑھیاں تک اٹھا دی تھیں۔ ارے لوگ پھل کھائیں گے تو کرونا سے بچیں گے۔

خیر شرمندہ شرمندہ واپس ہو لیے۔ لوسی کو راستے کے کتوں سے بچایا۔ اللہ جانے یہ کتے ایک دوسرے کے ہی دشمن کیوں ہوجاتے ہیں۔ ایک ایک علاقے پر قابض ہوجاتے ہیں اور للکارتے رہتے ہیں کہ گزر کر دکھاو تو۔ کہیں اندر کھاتے ان کا بھی کوئی رجسٹری سسٹم تو نہیں۔ لوسی نے ہماری حفاظت کیا کرنی تھی۔ ہم اس کی حفاظت کرتے رہے۔

شکر شکر کرکے ہمارا ٹاون آگیا۔ ٹاون کی واحد دکان کھلی تھی۔ وہاں سے کھانے پینے کے لیے کچھ چیزیں لیں لوسی کےلیے کیک۔۔وہ شوق سے کھاتی تھی۔

گھر پہنچے تو گیٹ کے پاس ہی لوسی ڈھیر ہوگئی۔ ہم تھکے ہارے ڈھیر بھی نہ ہو سکے۔۔ منہ ہاتھ دھوکر کھانا گرم کرنے لگے۔۔وچا تو بہت کچھ تھا مگر اب یہی کچھ تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں