کراچی(عکس آن لائن)سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتا ح اسماعیل نے کہاہے کہ آئی ایم ایف سے بات کر کے 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دیا جا سکتا ہے،بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی فوری نجکاری کرنا ہوگی،نئے ڈیمز بنانے میں بہت وقت لگ جائے گا، ہمیں فوری طور پر ہوا اور شمسی توانائی پر جانا ہوگا۔
خصوصی گفتگوکرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ کیپسٹی چارجز کے ہر سال 2 ہزار ارب روپے تو کمپنیوں کو دینے ہی دینے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف سے بات کر کے 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بجلی بل زیادہ آنے کے قصور وار موجودہ نگراں وزیراعظم نہیں ہیں، ہم پچھلے 20 سے 30 سال سے اصلاحات نہیں کررہے۔
انہوں نے کہا کہ 22-2021 میں 1350 ارب روپے محکمہ بجلی کوسبسڈی کی مد میں دیے گئے تھے، 23-2022 میں بھی اتنے ہی ارب محکمہ بجلی کو دیے گئے ہیں۔سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم گردشی قرضہ بڑھاتے رہے، بجلی کی چوری نہیں رکی وہ سارا خمیازہ آج کے صارف کو بھگتنا پڑرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جو بجلی کا بل ادا نہیں کرتے اس کا خمیازہ بھی بل دینے والے صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے، ہم نے اصلاحات نہیں کیں اس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ حکومت چاہے تو بجلی کے بلوں سے سیلز ٹیکس ختم کرسکتی ہے مگر جو ہدف ہے وہ تو حاصل کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ سیلز ٹیکس اگر بل سے ختم کردیں تو کہاں سے جمع کریں؟انہوں نے کہا کہ اگر پراپرٹی، زرعی آمدن، سروسز سیکٹر پر سیلز ٹیکس لگانے سے گریز کریں گے تو غریبوں پر ہی لگائیں گے جو کیا جارہا ہے، بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ امیر لوگوں سے ٹیکس کیسے اکٹھا کرنا ہے صرف غریبوں پر ٹیکس نہیں لگانا۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کے بل انتہا سے زیادہ بڑھ چکے ہیں، جب میں وزیر تھا تو شہباز شریف نے فون کیا تھا کہ 200 یونٹس والوں کی بجلی کی قیمت نہ بڑھائیں۔انہوں نے کہاکہ اس وقت ہم نے 200 یونٹس والے صارفین کے لیے عالمی مالیاتی ادارے سے بات کی تھی تو آئی ایم ایف مان گیا تھا۔
مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ حکومت کم از کم اب بھی 200 یونٹس سے 300 یونٹس کے گھریلو صارفین کے ٹیکس کم کرسکتی ہے، بس اس کے لیے آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ بلوں کے معاملے پر اگر آئی ایم ایف سے بات کرلیں تڑی نہ لگائیں تو وہ بات مان جائے گا، پاکستان کی حکمرانی ناقص ہے ہم یہاں کچھ نہیں کرسکتے۔