وزیراعظم عمران خان

کوئی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، طاقت ور کو قانون کے نیچے لانا سب سے بڑا جہاد ہے، وزیر اعظم

اسلام آباد(عکس آن لائن)وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کوئی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، طاقت ور کو قانون کے نیچے لانا سب سے بڑا جہاد ہے،سوئٹزرلینڈ میں قانون کی حکمرانی و بالادستی ہے، وہاں کسی چپڑاسی کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے نہیں جاتے، سوئٹزرلینڈ میں کوئی قبضہ مافیا نہیں اور کوئی لندن جاکر فلیٹ نہیں خریدتا، لندن بھاگنے والوں پر کوئی پھول نہیں پھینکتا، تعلیم ،قانون ،علاج اور ہر شعبے میں امیر غریب کیلئے پاکستان میں2قانون آئے، پاکستان میں عدالتی نظام آہستہ آہستہ کمزورہوتاگیا، جیل غریب لوگوں سے بھری ہوئی ہیں ،طاقت ور کو چوری کی سز انہیں ملتی اور غریب پس جاتاہے ،فلاحی ریاست کی طرف ہم بڑا قدم اٹھاچکے ہیں، ہمارا انقلابی قدم قانون میں اصلاحات اور عمل کی طرف ہوگا،

اب عدلیہ کا کام عمل کرانا ہے۔ جمعرات کو یہاں اسلام آباد میں فوجداری قانون میں اصلاحات سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ باہر ممالک کے لیگل سسٹم ٹیکنالوجی کی مدد سے بہتر ہوتے رہے ، پاکستان کا سسٹم انگریز کے جانے کے بعد سے نیچے جاتا رہا۔انہوں نے کہاکہ طاقتور اور عوام کے لیے علیحدہ پاکستان بن گیا، جسٹس سسٹم صرف طاقتور کو فائدہ پہنچانے لگا اور عام آدمی جیلوں میں بھرے جاتے رہے، کئی قیدیوں کا جرم صرف ان کی غربت ہے، تعلیم اور انصاف کا سسٹم شروع سے خراب ہوتا رہا، پرائیویٹ انگریزی اسکول اوپر جاتے رہے اور گورنمنٹ اسکول زوال کا شکار ہوگئے، اسی طرح سرکاری ہسپتالوں کا حال بھی خراب ہوتا گیا اور پرائیوٹ ہسپتال آتے گئے، امیر ملک سے باہر جاکر علاج کرانے لگے۔

انہوں نے کہا کہ جو یہ سسٹم متارف کروایا ہے اس کا مقصد عام آدمی تک انصاف کی رسائی ہے، مدینے کی ریاست کا تصور صرف جمعے کے خطبوں تک محدود ہوگیا ہے، اس سے بہترین ماڈل دنیا کی تاریخ میں کوئی نہیں جس نے انقلاب برپا کیا، اسلامی فلاحی ریاست کا ماڈل مدینہ کی ریاست ہی ہے،وزیراعظم نے کہا کہ ہیلتھ انشورنس جیسا قدم کئی خوشحال ممالک میں بھی موجود نہیں ہے، مفت انشورنس ہر خاندان کو دینا فلاحی رہاست کی جانب اہم قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کے ابتدائی سالوں میں خوشحالی نہیں تھی تاہم قانون کی بالادستی سب سے پہلے قائم کی گئی، انصاف کی عدم فراہمی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔انہوںنے کہاکہ اوورسیز پاکستان ہمارا اثاثہ ہیں جس کی ترسیلات زر سے پاکستان چل رہا ہے تاہم وہ پاکستان میں انویسٹ کرنے کا تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں خود اورسیز پاکستانی رہ چکا ہوں اس لیے میں یہ جانتا ہوں کہ وہ رول آف لا نہ ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان میں انویسٹ کرنے کو تیار نہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ 90 لاکھ اوورسیز پاکستان میں انویسٹ کرنا شروع کردیں تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا، ریکوڈک سے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا، اگر یہ کیس ہماری عدالتوں میں ہی حل کیا جاتا تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا جس کی ہم نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔انہوں نے کہا کہ وکلا سے اپیل ہے کہ کرمنل ریفارمز کو امپلیمنٹ کرنا کا کام اب اپ کا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ رول آف لا انڈیکس میں سب سے اوپر ہے، ہمارے ناردن ایریاز سوئزرلیند سے بہتر ہے تاہم رول آف لا نہ ہونے کی وجہ سے ،100 بلین دالر بھی ہم کما نہیں پاتے ٹورازم سے، سوئزلینڈ میں چپڑاسیوں کے اکاونٹ میں اربوں روپے نہیں نکلتے، ان کا معاشرہ ہمارے لیے مثال ہے، مدینہ کی ریاست میں بھی قانوں کی نظر میں سب برابر تھے۔

انہوں نے کہا کہ طاقتور کا قانون کے سامنے لانا سب سے بڑا جہاد ہے، آپ نے ریفارمز میں ٹیکنالوجی کا اتعمال کرکہ غیرمعمولی کام کیا ہے، ای وی ایم کا مقصد بھی یہی ہے، عام آدمی کو ان ریفارمز کی اشد ضرورت ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ سوئزلینڈ میں وزرا کے چپڑاسیوں کے اکاونٹ میں اربوں روپے نہیں نکلتے، وہاں کوئی قبضہ گروپ نہیں ہے، وہاں لندن بھاگنے والوں پر کوئی پھول نہیں پھینکتا، وہاں سڑک پر آپ کاغذ بھی پھینکیں تو آپ کو ٹوکا جائیگا، ان کا معاشرہ ہمارے لیے مثال ہے، یہی اصول حضرت محمدۖنے مدینہ کی ریاست میں بھی قائم کیا تھا، جہاں قانوں کی نظر میں سب برابر تھے، حتیٰ کہ خلیفہ وقت سے یہودی بھی کیس جیت جاتا تھا۔انہوںنے کہاکہ ہمارے لیے سب سے بڑا جہاد طاقتور کو قانون کے سامنے لانا ہے، آپ نے کرمنلز ریفارمز میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے غیرمعمولی کام کیا ہے،کرکٹ میں بھی میں نے نیوٹرل امپائر کیلئے 6 سال بڑی مہم چلائی جس پر مجھے مخالفت کا سامنا کرنا پڑالیکن میں نے اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بھی بات کی اور اس پر بھی مجھ پر تنقید ہوئی، آج کرکٹ میں نیوٹرل امپائر اور ٹیکنالوجی کی مدد سے چیٹنگ ختم ہوگئی ہے، سب اپنی ہار جیت تسلیم کرلیتے ہیں، ای وی ایم متعارف کروانے کا مقصد بھی یہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں