حیاتیاتی تنوع

ویٹ لینڈز کا تحفظ،حیاتیاتی تنوع اور انسانی مستقبل کا تحفظ ہے، چینی میڈ یا

بیجنگ (عکس آن لائن)رامسرکنوینشن پر دستخط کرنے والوں کی چودہویں کانفرنس 5 سے 13نومبر تک بیک وقت چین کے شہر وو ہان اور جینیوا میں منعقد ہو رہی ہے۔کانفرنس میں “وو ہان اعلامیے “کی منظوری دی گئی جس میں مختلف فریقوں سے در خواست کی گئی ہے کہ سب مل کر ویٹ لینڈز کے تحفظ کو مضبوط بنائیں۔”انسان دریاوں کے کناروں پر آباد ہے اور تہذیب و تمدن نے دریا کنارے ہی جنم لیا ہے۔ویٹ لینڈز نہ صرف حیاتیاتی تنوع ،بلکہ انسانی تہذیب و تمدن کا باعث ہیں ۔ ویٹ لینڈز کا تحفظ، ہی انسان کا تحفظ ہے۔منگل کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق ویٹ لینڈز کہیں دوردراز علاقوں میں نہیں ہوتےہیں۔ایک دفعہ جب میں باغ میں گھوم رہی تھی تو اچانک کئی پرندے نظر آئے جو پہلے بہت کم نظر آتے تھے۔ان کی پرواز کا رخ ایک ہی جانب تھا ۔میں نے دیکھا وہ جس جانب گئے ادھر ابھی ابھی پودوں کو پانی دیا گیا تھا جس سےایک چھوٹا سا تالاب بن گیا تھا۔کچھ پرندے اس گڑھے کے آس پاس جمع ہونے والے پانی کو پی رہے تھے اور کچھ اپنے پنکھ سنوار رہے تھے۔ اسے ایک بہت ہی چھوٹا سا مصنوعی ویٹ لینڈ سمجھیں تو اس سے ویٹ لینڈز کی اہمیت صاف نظر آتی ہے۔

خوردبین سے دیکھیں ، تو پتہ چلتا ہے کہ تالاب کے پانی کی ایک بوند میں بہت سے مائکروجرمز ہوتے ہیں۔جانور جانتے ہیں کہ جہاں پانی موجود ہے،وہاں وافر خوراک اور صاف ماحول میسر ہے۔عقلمند انسان بھی جانتا ہے کہ ویٹ لینڈز نہ صرف جانوروں کے لئے زیادہ اقسام کی رہائش گاہیں فراہم کرتے ہیں ، بلکہ انسانوں کے لئے ایک صحت مند اور زیادہ خوشگوار ماحول بھی فراہم کرتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں ویٹ لینڈز کی اہمیت سے متعلق لوگوں کی سمجھ بوجھ میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کا تحفظ سرکاری منصوبہ بندی کا بھی اہم حصہ بن چکا ہے۔بیجنگ کی نواحی ڈسٹرکٹ یان چھنگ میں واقع جنگلی بطخ نامی ویٹ لینڈ پارک مہاجر پرندوں کے لئے ایک اہم ٹرانزٹ پوائنٹ ہے ، یہاں پر لوگ جو اناج اگاتے ہیں وہ آبی پرندے پسند کرتے ہیں ، اسے “مہاجر پرندوں کی کینٹین” کہا جاتا ہے۔قدرتی پانی کا تحفظ کرتے ہوئے لوگ استعمال شدہ پانی کو صاف کر کے چھوٹی ندی یا جھیل میں محفوظ کرتے ہیں ،ان میں وہ آبی پودے اگائے جاتے ہیں اور بطخیں پالی جاتی ہیں جو پانی کو مزید صاف بنا سکتی ہیں۔میری رہائش گاہ کے قریب ہی اس قسم کا ایک مصنوعی ویٹ لینڈ ہے جہاں پانی کافی صاف ہے اور یہ بہت سے جانداروں کا مسکن بن چکا ہے۔
اگرچہ ویٹ لینڈز کے تحفظ کے لیے کافی کوششیں کی گئی ہیں ،تاہم رامسر کنویشن پر دستخط کیے جانے کے 51 برسوں میں دنیا میں قدرتی ویٹ لینڈز کے رقبے میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔دسمبر 2021 میں جاری عالمی ویٹ لینڈز آؤٹ لک کی ایک خصوصی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ انسانی سرگرمیاں ،خاص کر زرعی سرگرمیاں ،ویٹ لینڈز میں کمی کا ایک اہم عنصر ہے۔رامسر کنویشن کی فہرست میں نصف “اہم بین الاقوامی ویٹ لینڈز ” زراعت کے طریقہ کار سے متاثر ہیں۔

اس لیے زرعی پیداوار میں پائیدار منصوبہ بندی بے حد اہم ہے۔اس ضمن میں چین کی زراعت میں حیاتیاتی کاشت کاری نے ایک حل فراہم کیا ہے۔چاول کے کھیتوں کی مثال لیں ،تو لوگ کھیتوں میں بطخیں پالتے ہیں،بطخیں فالتو گھاس اور کیڑے کھاتی ہیں،ان کا فضلہ نامیاتی کھاد بن جاتا ہے۔ مزید حیرت انگیز چیز یہ ہے کہ بطخ کی چونچ روزانہ چاول کی جڑوں یا نیچے زمین سے ہزار سے زائد بار ٹکراتی ہے جس سے چاول کی نشونما بھی بڑھتی ہے۔ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ چاول کا کھیت بھی ایک قسم کا مصنوعی ویٹ لینڈ ہے جو ویٹ لینڈز جیسے فوائد کا حامل بھی ہے اور چاول کی کاشت کاری میں ماحول دوست طریقے کا استعمال ویٹ لینڈز کے تحفظ کے لیے بھی مفید ہے۔

آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے میں ویٹ لینڈز کا بھی اہم کردار ہے۔اس سے سب سے شدید متاثر ہونے والے میں سے ایک ملک کی حیثیت سے ، پاکستان کے لیے بھی ویٹ لینڈز کا تحفظ خاص اہمیت کا حامل ہے۔چین اور پاکستان اس شعبے میں بھی تبادلہ و تعاون کر رہے ہیں۔دسمبر 2021 میں مغربی چین کی چھنگ ہائی جھیل اور پاکستان کے صوبہِ سندھ ک کینجھر جھیل میں دوست جھیلوں کے تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔پاکستان میں رامسر کنوینشن کی فہرست میں انیس اہم بین الاقوامی ویٹ لینڈز موجود ہیں جن میں کینجھر جھیل بھی شامل ہے۔چھنگ ہائی چھیل چین کی سب سے بڑی ان لینڈ جھیل ہے اور یہ بھی رامسر کنوینشن کی فہرست میں شامل اہم ویٹ لینڈ ہے۔دونوں اہم بین الاقوامی ویٹ لینڈز کے درمیان تعاون و تبادلے عالمی ویٹ لینڈز کے تحفظ کے لیے بہت قیمتی تجربات فراہم کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ، چاول کی کاشت کاری سمیت زرعی شعبے میں باہمی تعاون بھی ویٹ لینڈز کے تحفظ اور عوامی صحت و فلاح و بہبود کو بڑھانے میں ٹھوس فوائد فراہم کا باعث ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں