اسلام آباد (عکس آن لائن)نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ جب پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے تو قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا اور نگران حکومت نے سابق وزیراعظم کی آمد کے حوالے سے منصوبہ بندی کے لیے وزارت قانون سے رابطہ کیا ہے،وطن واپس پہنچتے ہی میں اس سلسلے میں ایک اجلاس طلب کروں گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم نے وزارت قانون سے پوچھا ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر انتظامی اقدامات کے لحاظ سے نگران حکومت کی حیثیت کیا ہونی چاہیے، وطن واپس پہنچتے ہی میں اس سلسلے میں ایک اجلاس طلب کروں گا۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ عدالتیں کریں گی کیونکہ عدلیہ نے مسلم لیگ(ن) کے قائد کو استثنیٰ دیا تھا جس کے بعد وہ ملک سے باہر روانہ ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سزا یافتہ فرد کو ایگزیکٹو نے نہیں بلکہ عدالتوں نے ملک سے جانے کی اجازت دی تھی، وہ عدالتی اجازت نامے کے ساتھ ملک سے باہر گئے تھے، یہ سوال ایگزیکٹو کے پاس نہیں بلکہ عدالتوں کے پاس ہے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی رہائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اگر عمران خان عدالتوں سے ریلیف لینے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوںنے کہاکہ میرا مطلب ہے کہ عدالتی نظام میں جتنے بھی مواقع آپ کے پاس ہیں، اگر ان مواقع کے بعد بھی قوانین کے تحت ان کو الیکشن سے روکا گیا تو یہ ہمارے مینڈیٹ سے باہر ہے کہ ہم ان کو کوئی ریلیف دے سکیں، تو قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے کوئی سختی نہیں برتی جائے گی لیکن جو لوگ ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث تھے، ان کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ مخصوص لوگ ہیں جن کی 25 کروڑ کی آبادی میں تعداد 1500 یا 2000 ہے، انہیں پی ٹی آئی سے جوڑنا کوئی منصفانہ تجزیہ نہیں ہے۔جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ اگر چند سیاسی رہنماؤں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی گئی تو کیا ملک میں جاری سیاسی بحران میں اضافہ ہو گا تو انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے، ہم قیاس آرائیاں نہیں کر سکتے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا چونکہ یہ ہمارے مینڈیٹ سے باہر ہے۔انہوںنے کہاکہ جہاں تک میری حکومت کا تعلق ہے تو ہمارا مقصد بحران روکنا یا بحران پیدا کرنا نہیں ہے، ہمارا کردار قانون کے مطابق انتخابات میں جانا ہے اور اگر انتخابات کے نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے تو پھر یہ پورے معاشرے اور ریاست کے لیے سوال ہے، یہ نگراں حکومت کے لیے نہیں ہے۔
نگراں وزیراعظم نے ملک کو موجودہ مشکلات سے نکالنے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا کہ آنے والے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے اور ہم شفاف انتخابات کے تمام اشارے حاصل کر لیں گے۔ فوج کے خلاف عمران خان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اسی فوج نے ان کی حکومت کے دوران پی ٹی آئی کے سربراہ کے ساتھ مل کر کام کیا اور وہ شہرت کیلئے ہائبرڈ انتظامات کا کریڈٹ لیا کرتے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90000 سے زائد جانیں گنوائی ہیں کیونکہ نیٹو اور آئی ایس ایف سمیت تمام فریقین کے خطے سے نکل جانے کے بعد ملک کو خود ہی اس بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج اور نیم فوجی دستے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے شاندار کام کر رہے ہیں۔ نئے حملوں کے چیلنج کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ انخلا کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے چھوڑے گئے اضافی سامان اور اسلحہ کی وجہ سے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 300000 افغان فوج جدید ترین آلات سے لیس تھی اور انخلا کے بعد وہ اسلحہ اور ساز و سامان بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنی سرزمین پر مقابلہ کر رہا ہے لیکن افغانستان میں ان کی پناہ گاہیں بھی اس مسئلے کا جزو ہیں۔ اپنی حکومت کی معاشی ترجیحات کے بارے میں نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ انہوں نے کرنسی اور ذخیرہ اندوزی کی غیر قانونی تجارت کے خلاف کریک ڈائون کیا ہے۔ حکومت سٹیل مل، پی آئی اے اور پاور ڈسکوز جیسے سرکاری اداروں کی نجکاری کے لیے بھی اقدامات کرے گی۔ انہوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے۔ تاہم انہوں نے آئین کے آرٹیکل 254 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ بھی مقررہ مدت کے اندر نہیں کیا گیا وہ غیر آئینی یا غیر قانونی ہونے کے مترادف نہیں ہے۔