بابر اعوان

مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مرتا،بابر اعوان کے عدالت میں دلائل

اسلام آباد(نمائدہ عکس ) پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مرتا، عمران خان کو اے کے 47 کی گولی لگی ہے، نائن ایم ایم کی گولی شہید معظم کو لگی ہے ، اسلام آباد میں اس وقت تک 37 ایف آئی آرز ہو چکی ہیں، سب میں ایک ہی دفعات ہیں۔ پیر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، علی اعوان اور دیگر کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور کار سرکار میں مداخلت کے کیس کی سماعت ہوئی، جس میں پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان اور اسد عمر عدالت میں پیش ہوئے۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس نے اسد عمر کو حاضری لگا کر جانے کی اجازت دے دی۔ پی ٹی آئی رہنماں واثق قیوم عباسی، فیصل جاوید، عامر محمود کیانی و دیگر کی ضمانت قبل از گرفتاری پر سماعت کے دوران وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزامات لگائے گئے ہیں کہ سڑک بند کی، حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایما پر کیا گیا، لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ایف آئی آر کا متن پڑھتے ہوئے بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ لکھا ہے کہ ڈنڈے سے اور نعروں سے خوف و ہراس پھیلایا گیا۔بابر اعوان نے دلائل میں کہا کہ کون سی سرکاری گاڑی کو نقصان ہوا، ایف آئی آر میں نہیں لکھا۔ سڑک پر کھڑے ہونے کا صرف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ہم سب غلطیاں کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ دوران سماعت بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو 2 گولیاں لگی ہیں۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ قاتل اور اقدام قتل کے بہت سے کیسز ہم نے دیکھے ہیں۔ نیچے سے گولی لگے تو وہ لاتوں میں لگ سکتی ہے۔ بابر اعوان نے کہا کہ ایک کہاوت ہے مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مرتا۔ انہوں نے بتایا کہ نائن ایم ایم کی گولی شہید معظم کو لگی ہے جب کہ عمران خان کو اے کے 47 کی گولی لگی ہے۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں نامزد پی ٹی آئی رہنماوں واثق قیوم عباسی ،فیصل جاوید،عامر محمود کیانی و دیگر کی ضمانت قبل از گرفتاری پر سماعت کے دوران بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ان میں سے کچھ راولپنڈی کے ہیں، اسلام آباد نہیں آئیں گے۔

اسلام آباد میں اس وقت تک 37 ایف آئی آرز ہو چکی ہیں، سب میں ایک ہی دفعات ہیں۔ جج راجا جواد عباس نے کہا کہ ہماری عدالت میں اب سیاسی کیسز 15 فیصد ہو گئے ہیں۔ یہ جو معاملات ہو رہے ہوتے ہیں یہ آپ کو سمجھ آرہے ہوتے ہیں۔ عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ آج اپنے دلائل دیں گے؟۔ جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ میرے پاس مقدمے کا ریکارڈ موجود نہیں،ریکارڈ حاصل کر کے جواب دوں گا۔عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی اور پراسیکیوٹر کو 14 نومبر سے قبل جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں