وزیر خزانہ

عمران خان کو مجبوری کے تحت آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، وزیر خزانہ

اسلام آ باد (نمائندہ عکس ) وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ عمران خان کو مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہے،حکومت نے موثر حکمت عملی سے معیشت بہتر بنائی ہے، اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کیلئے سخت اقدامات کئے گئے ہیں، ہم غریب طبقے کو براہ راست فنڈز دے رہے ہیں، پاکستان میں بچت کی شرح آج بھی بہت کم ہے، پاکستان کو مستحکم معاشی ترقی کی ضرورت ہے، سماجی تحفظ کیلئے احساس پروگرام کے تحت فنڈز خرچ کئے گئے، یہ سیاسی پروگرام نہیں صرف عوامی فلاح کا منصوبہ ہے، کامیاب پاکستان پروگرام کے ذریعے 10 سے 15 ارب روپے ماہانہ دیئے جائیں گے۔کارپوریٹ پاکستان گروپ کے زیر اہتمام پاکستان پیٹروکیمیکل اسمپوزیم کا انعقاد ہوا جس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے خطاب میں کہا کہ کسی شعبے میں سرمایہ کاری سے متعلق واضح پالیسی روڈ میپ موجود نہیں، یہ اسمپوزیم معیشت کی بہتری کیلئے روڈ میپ طے کرے گا۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ حکومت کو دو سال قبل کورونا وبا کا سامنا کرنا پڑا، حکومت کو 2.7 جی ڈی پی کی شرح نمو ملی، معیشت کی بہتری کیلئے شرح نمو کو 6 فیصد تک لانے کے اقدامات کئے گئے، حکومت نے موثر حکمت عملی سے معیشت بہتر بنائی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کیلئے سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔ وزید خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ عمران خان نے کورونا کے دروان جو پالیسی اپنائی، دنیا نے اس کو سراہا ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ ہم غریب طبقے کو براہ راست فنڈز دے رہے ہیں، پاکستان میں بچت کی شرح آج بھی بہت کم ہے، اس لیے پاکستان کو مستحکم معاشی ترقی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت کئی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے، 60 کی دھائی میں ہماری معیشت ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت تھی، پھر وسیع تر نیشنلائزیشن کرنے سے مختلف مسائل پیدا ہوئے اور 1979 میں ملٹری ڈکٹیٹر نے پاکستان کو افغان جنگ میں دھکیل دیا۔

انکا کہنا تھا کہ پھر افغان جنگ نے ملکی معیشت کو شدید مسائل سے دوچار کیا، اس دوسری افغان جنگ کے بھی ملکی معیشت پر براہ راست اثرات ہوئے، پاکستانی معیشت نے مسلسل ان چیلنجز کے باعث نقصانات اٹھائے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسٹرکچرل مسائل اور بروقت اقدامات نہ کرنے سے معیشت کی سمت درست نہ ہوسکی کیوںکہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکسز کی شرح بہت کم تھی۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات اور درآمدات میں وسیع عدم توازن تھا، معیشت کی شرح نمو بھی متزلزل رہی، جاری اخراجات اور وسائل سمیت آمدن میں توازن نہیں تھا، 2018 میں پی ٹی آئی حکومت کو آتے ہی 20 ارب ڈالر کے خسارہ سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ دوست ممالک سے مدد تو ملی لیکن وہ ناکافی تھی، ہماری معیشت کو ڈسکاﺅنٹ ریٹ، روپے کی شرح تبادلہ اور بھاری ادائیگیوں سے مسائل درپیش ہوئے، حکومت نے ٹھوس اقدامات کرکے ان پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ فلاحی ریاست تھی، سماجی تحفظ کیلئے احساس پروگرام کے تحت فنڈز خرچ کئے گئے، یہ سیاسی پروگرام نہیں صرف عوامی فلاح کا منصوبہ ہے۔ وزیر خزنہ نے بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کے ذریعے 10 سے 15 ارب روپے ماہانہ دیئے جائیں گے، یہ 40 لاکھ خاندانوں کیلئے ایک بہترین پیکیج ہے جس سے پائیدار ترقی ممکن ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں