ڈوشان زی-کوجا ہائی وے کی کل لمبائی 561 کلومیٹر ہے۔ راستے میں آپ سبزہ زاروں ، جنگلات، وادیوں اور برف سے ڈھکے پہاڑوں جیسے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، یہ گاڑی چلانے والے سیاحوں کے لیے مقبول ترین منزلوں میں سے ایک بن گیا ہے اور اس سے سنکیانگ کی سیاحت کو بھی کافی فروغ ملا ہے۔
خطرناک وادیوں سے گزرتے ہوئے، مجھے شاہراہ قراقرم کی یاد آئی جس پر جانے کا مجھے ابھی تک موقع نہیں ملا – ڈوشان زی-کوجا ہائی وے کی تعمیر میں 10 سال لگے اور 168 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ قراقرم ہائی وے کی تعمیر میں 10 سال سے زیادہ کا عرصہ بھی لگا اور چین اور پاکستان سے تقریباً 700 افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
لوگ کیوں مشکلات نیز قربانیوں سے بھی نہیں ڈرتے اور ان سڑکوں کو پہاڑی سلسلوں میں تعمیر کر رہے ہیں؟میرے خیال میں اس کے پیچھے دنیا سے جڑنے اور زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاہراہ قراقرم چین اور پاکستان کے عوام کی قدرتی مشکلات پر قابو پانے کی مشترکہ کاوشوں کی علامت ہے، جب کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری زمانے کے چیلنجوں کے مقابلے اور مشترکہ ترقی کی جستجو میں مشترکہ کوششیں ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان واحد زمینی بندرگاہ کے طور پر قراقرم ہائی وے پر واقع خنجراب بندرگاہ چین پاکستان دوستی، تعاون اور تبادلوں کی عینی شاہد ہے۔
خنجراب بندرگاہ تاریخی طور پر ہندوستان، وسطی و مغربی ایشیا اور یورپ کے لیے قدیم شاہراہ ریشم کا ایک کلیدی مقام تھا ، اور یہ چین، جنوب و مغربی ایشیا اور یورپ کے درمیان اقتصادی اور ثقافتی تبادلے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے ۔7 اگست 1982 کو خنجراب بندرگاہ کو باضابطہ طور پر چین اور پاکستان کے شہریوں کے لیے کھول دیا گیا ،پھر چار سال کے بعد، یکم مئی 1986 کو اسے باضابطہ طور پر تیسرے ممالک کے افراد کے لیے کھول دیا گیا۔
حالیہ برسوں میں وبا کی وجہ سے خنجراب بندرگاہ کو ایک عرصے کے لیے بند کر دیا گیا تھا، اسے اس سال اپریل میں دوبارہ کھول دیا گیا تھا اور 7 اپریل کو تین سالوں میں پاکستانی سیاحوں کی پہلی کھیپ اس بندرگاہ سے چین داخل ہوئی ۔ مئی میں، ہمیں شہر کاشغر میں کاروبار کے لیے آنے والے پاکستانی دوستوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ خنجراب بارڈر انسپکشن اسٹیشن کے اعدادوشمار کے مطابق 3 اپریل سے اب تک خنجراب بندرگاہ سے داخل ہونے اور باہر جانے والے افراد کی تعداد 21,000 تک پہنچ گئی ہے۔
22 اگست کو چین سے پاکستان کے لیے پہلی ٹرانسپورٹ انٹرنیشنل روئٹرز سروس (ٹی آئی آر )شروع کی گئی۔ پانچ کنٹینر ٹرک خنجراب بندرگاہ سے نکل کر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ گزشتہ 60 برسوں کے تجربات کے مطابق ، ٹی آئی آر نظام نقل و حمل کے وقت میں 40 فیصد اور اخراجات میں 30 فی صد کی بچت کر سکتا ہے۔ یہ سروس سنکیانگ کے کھلے پن کو بڑھانے میں مدد دے گی اور چین اور پاکستان کے مابین تعاون و مشترکہ ترقی کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کی اعلیٰ معیار کی ترقی ہو رہی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان افرادی تبادلے اور دوطرفہ تجارت کو مزید آسان بنانے کے لیے خنجراب بندرگاہ مسلسل سہولیات فراہم کررہی ہے تاکہ چین کے مغرب میں کھلے پن کی حامل ایک اعلیٰ معیاری گزرگاہ بنائی جائے اور چین پاکستان ہم نصیب معاشرے کی تعمیر میں مسلسل قوتِ محرکہ فراہم کی جائے۔