جاوید لطیف

جنرل باجوہ، ثاقب نثار سمیت سب کے مفادات آپس میں جڑے ہیں، جاوید لطیف

لاہور(عکس آن لائن) وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ، ثاقب نثار سمیت سب کے مفادات آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اگر عمران خان غلط کہہ رہے ہیں تو جنرل باجوہ سچی باتیں کیوں نہیں کرتے؟، انہیں کس نے روک رکھا ہے؟، کیا ریاستی ادارے کمزور ہو چکے ہیں ؟، کچے میں آپریشن کریں تو کامیاب، زمان پارک یا ظہور الہی روڈ پر کریں تو ناکام، آج ریاست مزید قربانی کی متحمل نہیں ہے، قانون کا اطلاق مارچ اپریل 2023 میں کیوں یاد آ رہا ہے؟، 2015 یا 2022 میں آئین دوبارہ تحریر کرتے وقت کیوں یاد نہیں آیا؟، آج بھی اداروں میں بیٹھے افراد کے مفادات عمران خان سے وابستہ ہیں ۔

پی آئی ڈی لاہور آفس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ آج حالات اس نہج پر آ چکے ہیں کہ اب اداروں میں بیٹھے افراد کو مکمل سچ بولنا پڑے گا۔ میثاق جمہوریت ہوا تو کچھ اداروں میں بیٹھے افراد کو لگے گا کہ ان کے خلاف اتحاد بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اداروں میں بیٹھے افراد کے ساتھ مل کر اگلے 10 سے 15 برس کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اسی لیے عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے سہولت کاری کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں وکیل رہنما امان اللہ، جسٹس شوکت صدیقی، جنرل باجوہ، ثاقب نثار سمیت سب کے اعترافات ظاہر کر رہے ہیں کہ سب کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر عمران خان غلط کہہ رہے ہیں تو جنرل باجوہ سچی باتیں کیوں نہیں کرتے؟،

انہیں کس نے روک رکھا ہے؟، کیا ریاستی ادارے کمزور ہو چکے ہیں ؟۔ لیگی رہنما نے کہا کہ آپ کچے میں آپریشن کریں تو کامیاب لیکن زمان پارک یا ظہور الہی روڈ پر کریں تو ناکام ۔ یہ حکومتِ وقت کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ اداروں میں بیٹھے افراد کی انصاف کرنے کی ذمے داری ہے ۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتوں کے نزدیک سی پیک، میثاق جمہوریت، دہشت گردی و لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، مہنگائی کو کنٹرول کرنا نواز شریف کے جرائم ہیں ۔

نواز شریف کو انتخابی میدان سے باہر اسی لیے رکھا جا رہا ہے کیونکہ نواز شریف ان عالمی طاقتوں کے مفادات کے خلاف ہے ۔ وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا کہ آج ریاست مزید قربانی کی متحمل نہیں ہے۔ قانون کا اطلاق مارچ اپریل 2023 میں کیوں یاد آ رہا ہے؟، 2015 یا 2022 میں آئین دوبارہ تحریر کرتے وقت کیوں یاد نہیں آیا؟۔ آج بھی اداروں میں بیٹھے افراد کے مفادات عمران خان سے وابستہ ہیں ۔ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ 2015 میں سازش کے وقت ہم کھڑے ہو جاتے اور قوم کو کھل کر حقیقت بتا دیتے تو آج حالات یہ نہ ہوتے ۔

2017 میں نواز شریف کی نااہلی کے وقت مسلم لیگ ن کھڑی ہو جاتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردوں کے ونگز، ادراوں کو کمزور کرنے والوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوتے ۔ ملک کے خلاف سازش کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے ۔ اس قوم کو انتشار میں مبتلا کرنے والے سے کس بنیاد پر مذاکرات ہو رہے ہیں ؟۔ اس شخص سے مذاکرات کریں گے تو ملکی دفاع پر کمپرومائز کریں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ قوم مطالبہ کرتی ہے کہ جن جن اداروں میں بیٹھے افراد سازش کرتے تھے ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

ہم کبھی الیکشن سے نہیں بھاگے حالانکہ ہماری قیادت کو نااہل کر کے باہر رکھا گیا تھا ۔ ہم پٹرول بم تو نہیں پھینکیں گے لیکن پٹرول بم پھینکنے والے کو من مانی نہیں کرنے دیں گے۔ کیا کوئی ازخود نوٹس لے گا کہ ٹکٹوں کی تقسیم پر اربوں روپے کوئی اکٹھے کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی طور پر بھی نواز شریف کے بغیر انتخابات قبول نہیں کریں گے ۔آپ نے آج تک اپنے بنائے ہوئے مجسمے کا احتساب نہیں ہونے دیا۔ اداروں میں بیٹھے افراد اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیں تو بہتر ہے ۔ آئین سے ہٹ کر مذاکرات کسی کی خواہش پر نہیں ہو سکتے۔ عدالتوں میں کبھی پنچایت نہیں لگا کرتی ۔

پارلیمان کی کھوکھ سے آئین جنم لیتا ہے، آئین کو بنانے والی پارلیمان کی بے توقیری کرتے رہیں گے تو آئین کی کسی شق پر عمل نہیں ہو پائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ آج دنیا میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے ۔ ہم نے میثاق جمہوریت کر کے اپنے پس پردہ کیے گئے کاموں کا اعتراف کر لیا ہے ۔ اب اداروں میں بیٹھے سازش کا حصہ بننے والے افراد کی ذمے داری ہے ۔ اداروں میں بیٹھے سب افرادجسٹس کھوسہ یا ثاقب نثار نہیں ہیں کچھ لوگ جسٹس شوکت صدیقی یا قاضی فائز عیسی بھی ہیں ۔عمران خان کی سہولت کاری کرتے رہیں لیکن نواز شریف کو میدان میں لازمی لانا ہو گا پھر ہی انتخابات ہو سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں