بہاریہ کماد

بہاریہ کماد کی بروقت کاشت کی صورت میں شرح بیج چار آنکھوں والے 13 سے15 ہزار سمے رکھی جائے، زرعی ماہرین

فیصل آباد۔(عکس آن لائن)محکمہ زراعت نے کاشتکاروں کو بہاریہ کماد کی ترقی دادہ اقسام کاشت کرنے کی ہدایت کی ہے جس سے بہتر پیداوار کا حصول یقینی بنایا جا سکتاہے۔ زرعی ماہرین نے بتایا کہ بہاریہ کماد کی اگیتی تیار ہونے والی اقسام میں سی پی ایف 243، ایچ ایس ایف240، ایچ ایس ایف 242،سی پی 77-400،سی پی 43-33،سی پی ایف 237 وغیرہ اور درمیانی تیار ہونے والی اقسام میں ایس پی ایف 245-، ایس پی ایف234،ایس پی ایف213،سی پی ایف 246اورسی پی ایف 247 وغیرہ شامل ہیں جبکہ سی اوجے 84پچھیتی تیار ہونے والی قسم ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ایس پی ایف 234صرف راجن پور، بہاول پور اور رحیم یار خان کے اضلاع کیلئے موزوں ترین قسم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ اقسام اچھی پیداوارکی حامل ہیں اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھتی ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرایئٹان سی او ایل 54,سی او 1148 انڈین سی او ایل 29،سی او ایل 44،بی ایل 4، ایل 116،ایل 118،ایس پی ایف 238، اور بی ایف 162 ممنوعہ اقسام ہیں کیونکہ یہ اقسام بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت نہیں رکھتیں۔ انہوں نے بتایاکہ بہاریہ کماد کی کاشت کا موزوں وقت مارچ کے وسط تک ہے اور فصل کیلئے شرح بیج بروقت کاشت کی صورت میں 4 آنکھوں والے 13 سے15 ہزار سمے یا تین آنکھوں والے 17 سے20 ہزار سمے ہیں نیز یہ تعداد گنے کی موٹائی کے لحاظ سے تقریبا 100 سے 120 من بیج سے حاصل کی جاسکتی ہے تاہم اگر کاشت میں تاخیر ہو جائے تو بیج کی مقدار میں 10 سے15 فیصد اضافہ کردینا چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد ڈویژن کے چاروں اضلاع فیصل آباد، جھنگ،ٹوبہ ٹیک سنگھ،چنیوٹ سمیت پنجاب میں کماد کی بہاریہ کاشت کے رقبہ میں 43ہزار ایکڑ کا اضافہ کردیا گیاہے

جس کے باعث گزشتہ سال کے 18لاکھ 10ہزار ایکڑ کے مقابلہ میں اس بار 18لاکھ 53ہزار ایکڑ سے زائدرقبہ پر15مارچ تک بہاریہ کماد کی کاشت یقینی بنائی جائیگی۔ انہوں نے بتایاکہ جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہاریہ کماد کے کھیتوں سے فی ایکڑ 621 سے 625من فی ایکڑ تک پیداوار حاصل ہونے کاامکان ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اس طرح مارچ کے وسط تک کاشتہ بہاریہ کماد کی کاشت سے روا ں سال 4کروڑ 10لاکھ ٹن سے 4کرو ڑ 40لاکھ ٹن تک پیداوارحاصل کرنے کاہدف مقرر کیاگیاہے۔ انہوں نے بتایاکہ کماد کی بہاریہ فصل کی کاشت کاموزوں ترین وقت وسط مارچ تک ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق پنجاب بھر میں رقبہ کے لحاظ سے گنے کا شمار گندم، کپاس، چاول کے بعد چوتھے نمبر پر ہوتاہے۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستان میں کاشتکاروں کی معاشی خوشحالی اور صنعت شکر سازی کیلئے گنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اس وقت پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بعد شوگر انڈسٹری دوسرے نمبر پر ہے۔

انہوں نے بتایاکہ ا س وقت پنجاب میں گنے کی پیداوار کا 70 فیصد سے زائد حصہ صرف چینی بنانے کیلئے استعمال ہو رہاہے جبکہ اس سے کچھ ضمنی مصنوعات چپ بورڈ ہارڈ بورڈ ایتھانول وغیرہ بھی بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ فیصل آبادڈویژن سمیت پنجاب کے اکثر اضلاع میں گنے کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 614من ہے جسے 650من تک بڑھانے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے کاشتکاروں کو کماد کی منظور شدہ اقسام کی کاشت بروقت مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں