ایل این جی

ایل این جی بحران ملک کوگھیرے میں لے رہا ہے،میاں زاہدحسین

کراچی (عکس آن لائن) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک میں ایل این جی بحران آرہا ہے جس کا حل گیس کا ضیاں روکنے اوراس کی راشننگ میں مضمر ہے کیونکہ ملکی خزانہ مہنگی ایل این جی درآمد کرکے سستی بیچنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حکومت سستی ایل این جی خریدنے کی کوشش کررہی ہے مگراس میں کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ یورپی خریداری کے پیش نظرعالمی منڈی میں اسکی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پہلے ہی ادائیگیوں کے بحران میں مبتلاء ہے اس لئے مہنگی خریداری نہیں کی جاسکتی۔ دوسری طرف کرونا وائرس اوراس کے بعد روس اوریوکرین کی جنگ نے جہاں ساری دنیا کومتاثرکیا ہے وہیں ایل این جی مارکیٹ بھی تہہ وبالا ہوگئی ہے۔ ملک میں ایل این جی کی کمی سے نہ صرف لوڈ شیڈنگ بڑھے گی بلکہ صنعتی پیداواربھی متاثرہوگی اوربجلی کی قیمت بھی بہت بڑھ جائے گی جس سے مہنگائی سے پریشان عوام کی کمر ٹوٹ جائے گی۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان تیس ڈالرفی یونٹ ایل این جی خرید چکا ہے مگراب یہ گیس چالیس ڈالرفی یونٹ میں بھی دستیاب نہیں ہے جبکہ حکومت مہنگی گیس کی کئی پیشکشیں مسترد بھی کرچکی ہے۔ جب تک روس جنگ کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتا عالمی منڈی میں توانائی اوردیگربہت سی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام ناممکن ہے جبکہ موسم سرما میں گیس کی کمی کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھرمیں صورتحال انتہائی مخدوش ہوجائے گی۔ ترقیافتہ ممالک نے بھی گیس کی راشننگ شروع کردی ہے جبکہ تیل کی پیداوار بڑھانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں تاکہ توانائی کی صورتحال کومعمول پرلایا جا سکے جس سے گلوبل وارمننگ کے اہداف متاثرہونگے۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ عالمی توانائی بحران کا سب سے بہترحل ایران سے پابندیاں ہٹانا ہے جس پرمکمل توجہ نہیں دی جا رہی۔ جب تک امپورٹس کم نہیں ہوگی روپیہ اسی طرح پٹتا رہے گا۔

اب روپے کومصنوعی طریقہ سے مستحکم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ملک میں اتنے ڈالر ہیں ہی نہیں کہ طلب پوری کی جا سکیاس لئے برآمدات اورترسیلات کو بڑھانے کی کوشش کی جائے جو ڈالر کو مذید مہنگا کیے بغیر ممکن نہیں جبکہ اگر زراعت پر بھرپور توجہ مرکوز کی جائے تو زرعی پیداوار میں اضافہ کرکے 10 سے 12 ارب ڈالر کی درآمدات میں کمی کی جاسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں