ریاض(عکس آن لائن)سعودی آرامکو کے سربراہ نے عالمی رہ نمائوں پر زور دیا ہے کہ وہ توانائی کی عالمی منتقلی کے لیے زیادہ جامع طریق کار اپنائیں اور اس عمل میں توانائی کے لوگوں کی پہنچ میں رہنے کے عنصر کو ملحوظ رکھا جائے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امین الناصر کینیڈا کے شہر کیلگری میں 24 ویں عالمی پیٹرولیم کانگریس سے خطاب کر رہے تھے۔ سعودی عرب اور دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او)اور صدر نے توانائی کے تحفظ اور قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی میں ہر ملک کی استطاعت سے متعلق مسائل کو نظرانداز کرنے کے ممکنہ نتائج پر روشنی ڈالی ۔
انھوں نے کہا کہ عالمِ شمال (گلوبل نارتھ)کا زیادہ تر حصہ اس وقت ماحولیاتی استحکام پر توجہ مرکوز کر رہا ہے جبکہ عالمِ جنوب (گلوبل ساتھ)میں بہت سے لوگوں کے لیے ترجیح معاشی بقا ہے۔انھوں نے توانائی کی عالمی منتقلی میں تقسیم کے خطرے کے بارے میں کہا کہ اس کی منصوبہ بندی نے مخصوص حل کی اس واضح ضرورت کو کافی حد تک تسلیم نہیں کیا ہے اور تقسیم میں خلیج ایک ناگزیر نتیجہ ہوگی۔امین الناصر نے توانائی کی منتقلی کے عمل میںکثیر ذرائع،برق رفتار اور کثیر جہت حکمتِ عملی کی ضرورت پر روشنی ڈالی جو ایک ہزارکھرب (100ٹریلین)ڈالر کی عالمی معیشت کی منتقلی کی پیچیدگی اور پیمانے کو ملحوظ خاطر رکھے۔
انھوں نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ 30 سال سے بھی کم عرصے میں ہمارے توانائی پرمبنی طرز زندگی کی دوبارہ ایجاد ہوئی ہے۔ آئیے ہم اس سے متاثر ہوں، لیکن یہ سمجھیں کہ اس کا مطلب تاریخ بنانا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انتقالِ توانائی کے عمل کی خامیاں پہلے ہی توانائی پیدا کرنے یا اس پر انحصار کرنے والی صنعتوں میں بڑے پیمانے پر الجھن کا سبب بن رہی ہیں۔ طویل مدتی منصوبہ سازوں اور سرمایہ کاروں کو معلوم نہیں کہ کس سمت جانا ہے۔اس سے روایتی توانائی میں رسد اور طلب میں شدید عدم توازن کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور اس طرح توانائی کا سنگین بحران پیدا ہو رہا ہے جہاں صرف اثاثے ہی نہیں بلکہ ممالک اور لوگ بھی پھنس کررہ گئے ۔کینیڈا میں منعقد ہونے والی یہ کانگریس 21 ستمبر تک جاری رہے گی۔اس کا موضوع”توانائی کی منتقلی” خالص صفر کا راستہ ہے۔